اللہ والی مسجد کہاں ہے؟

یہ صبح کا وقت ہے۔آزان ہو رہی ہے ۔ آزان کے ساتھ ہی محلے میں آیا ہوا ایک غریب گھرانے کا مہمان نماز کی غرض سے مسجد کی طرف چل نکلتا ہے ۔مسجد میناروں اور شیشوں کے مختلف رنگوں سے مزین ہے ۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی خادم مسجد اس کو اوپر سے نیچے تک عجیب سی نظروں سے دیکھتا ہے ۔ بہرحال مہمان اس کو نظر انداز کر تے ہوئے وضو کر کے نماز کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ نمازیوں کی آمد شروع ہوتی ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر آنے والا اس کو تقریبا ان ہی نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے خادم مسجد نے دیکھا تھا۔ اب مہمان کو اس مسجد میں اپنی موجودگی کچھ ’’ان فٹ‘‘ سی محسوس ہوتی ہے ۔ جیسے تیسے نماز ادا کر کے وہ جلدی میں باہر نکلتا ہے ۔ کہ جیسے کوئی چوری کر کے بھاگ رہا ہے ۔

باہر نکلتے ہی اس کو دور سے اپنا میزبان آتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ پریشانی کے انداز میں اس کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جاتا ہے ۔ میزبان قریب پہنچتے ہی اس کی گمشدگی کے متعلق استفسار کرتا ہے ۔ تو مہمان کہتا ہے کہ میں تو صبح کی نماز کے لئے سامنے والی مسجد میں گیا تھا ۔ لیکن وہاں مجھے ہر ایک اجنبی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میزبان ہنستے ہوئے کہتا ہے ۔ اوئے پاگل تمہیں کس نے کہا تھا کہ سنیاروں (جیولرز) کی مسجد میں جاٗو ۔ ہماری مسجد تو دوسری ہے ۔ تم سنیارے نہیں تھے اسلئے ہر ایک تمہیں اس نظر سے دیکھ رہا تھا ۔

یہ واقعہ چند سال پہلے ایک بزرگ سے سنا ۔ اور آج ایک اخباری اشتہار دیکھ کر ذہن میں تازہ ہو گیا ۔ اخباری اشتہار چیف کمشنر آفس اسلام آباد کی طرف سے شائع کیا گیا تھا ۔ اشتہار کے مطابق اوقاف کو مختلف فرقوں (دیوبندی، بریلوی، شیعہ وغیرہ) سے تعلق رکھنے والے خطیبوں ، موٗزن ، خادموں اور استادوں کی ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر چھپنے والے اس اشتہار کو دیکھ کر میرا تجسس مزید بڑھا اور میں نے اس ضمن میں چھپنے والے دیگر اشتہار بھی دیکھے ۔ جہاں نہ صرف خطیبوں ، موٗزن ، خادموں اور استادوں کا کسی خاص فرقہ سے ہونا ضروری تھا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اس کا شادی شدہ ہونا بھی ضروری ہے ۔(معلوم نہیں کیوں )

مزید جاننے کے لئے میں نے حکومت پاکستان کے سروسز رولز میں کوئی ایسی شق تلاش کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق فرقوں کی تقسیم کے مطابق ملازمتوں کا اشتہار دیا جا سکتا ہو ۔ لیکن مجھے کوئی ایسا رول نہ مل سکا ۔
کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ۲۰۱۵ میں کئے گئے سروے کے مطابق اسلام آباد میں سینتالیس فیصد مساجد معروف علما کی سرپرستی میں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔ آئی الیون میں تعمیر کی گئی زیادہ تر مساجد کے ’’مالک‘‘ مفتی عبداللہ کا کہنا تھا کہ شریعت کچھ تقاضوں کے ہوتے ہوئے مساجد کی خرید و فروخت کی اجازت دیتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کسی دوسری مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں زمینوں کی قیمتیں کروڑوں روپے ہونے کی وجہ سے پراپرٹی کا بزنس عروج پر ہوتا ہے۔

جنوبی ایشیا بلعموم اور پاکستان بلخصوص اپنے وجود کے زمانے سے ہی فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہیں ۔ جنرل ضیا کی فرقہ وارانہ بنیاد پر کی گئی تقسیم کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا اور آج لوگ مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ ہزاروں لوگ فرقہ واریت کی اس آگ میں زندگی سے ہا تھ دھو بیٹھے ہیں ۔ نوجوان فرقہ وارانہ جذبات کی آگ میں جل کر اپنی جوانیاں تباہ کر چکے ہیں۔ لاوڈ سپیکر کے زریعے ایک دوسرے کے فرقوں کو برا بھلا کہنا ایک روایت بن چکا ہے ۔ لیکن سرکاری سطح پر فرقوں کی سرپرستی قابل حیران اور قابل مذمت ہے ۔

گزشتہ تین دہائیوں میں جہاں ہماری آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔وہیں مساجد ، مدرسوں اور فرقوں نے بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔ پہلے جہاں سنی اور شیعہ کی تقسیم تھی اب وہاں سنیوں کے اندر وہابی، دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث سمیت ایسے ایسے فرقے وجود میں آ چکے ہیں ۔ جن کا شمار مشکل ہے ۔ ہر فرقے نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ۔ اور ہر فرقے کا کام دوسرے فرقے کو کسی نہ کسی طرح کافر قرار دلوانا ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ لوگوں نے برادریوں اور پیشوں کی مناسبت سے بھی مساجد بنا دیں ہیں ۔ یہ سب دیکھ کر ذہن میں سوال اٹھتے ہیں۔

کاش کوئی اللہ والی مسجد بھی ہوتی جہاں ہر ایک جا کر اللہ کے سامنے سر بسجود ہو سکتا

کاش کوئی ایسی مسجد ہوتی جہاں لوگوں کے دلوں کا ایک ہی خدا اور ایک ہی کعبہ ہوتا

یوں تو سید بھی ہو ۔ مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاٗو ، مسلمان بھی ہو

(واضح رہے کہ مفتی عبداللہ کا بیان ایکسپریس ٹریبیون ۱۹ مارچ ۲۰۱۵ میں چھپنے والی خبر سے لیا گیا ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے