اہل علم کی تلخیاں اور ان کا محمل

زبان کی نرمی اور دوسرے کے بارے میں اچھے الفاظ کا انتخاب اعلی اخلاق کا ایک اہم حصہ ہے ، خصوصا علمی دنیا میں اور بالاخص کسی سے اختلاف کرتے ہوئے یہ چیز اور زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ ہماری علمی روایت میں اہل علم اس پرزور بھی دیتے رہے ہیں اور عملا بھی اس کی پابندی کرتے رہے ہیں، لیکن انسان بہر حال انسان ہوتا ہے، غلطی بھول چوک اس کی فطرت کا حصہ ہے، اس لئے ایسی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ کسی موقع پر کسی شخصیت نے دوسری شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے سخت الفاظ کا استعمال کیا، ایسے واقعات کا حکم یہ ہے کہ نہ تو اس طرح کی مثالیں قابل تقلید ہوتی ہیں اور نہ ہی اس طرح کی بات کہنے والے پر اعتراض کیا جاتا ہے، کیونکہ اس نے یہ بات کسی ایسی جذباتی کیفیت میں کہی ہوتی جس میں وہ معذور ہوتا ہے۔

اس موضوع پر مولانا تھانوی رح نے بھی اپنے رسالے شق الغین میں بحث کی ہے، ان کا مضمون تو مجھے پورا یاد نہیں لیکن انہوں نے ایک استدلال صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی کیا ہے جس میں موسی اور خضر کے معاملے میں نوف بکالی کی ایک راے پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا : ’’کذب عدو اللہ‘‘ ، حالانکہ نوف بکالی تابعین میں سے اور اہل علم میں سے ہیں، عام مسلمان بھی ہوں تب بھی عدو اللہ قرار دینا بظاہر عجیب سا ہے۔ اب حضرت ابن عباس کی اس روایت کی بنیاد پر یہ کہنا کہ کسی کی علمی غلطی سامنے آنے پر ایسا کہنا جائز ہے یہ بھی درست نہیں، حضرت ابن عباس کو مورد طعن بنانا بھی درست نہیں، اس لئے کہ عام حالات میں ان کا یہ انداز گفتگو نہیں تھا، کسی غلط بات پر بعض اوقات انسان کی ایسی کیفیت ہوجاتی ہے۔ ابن عباس کے اس جملے کی توجیہات میں سے سب سے اچھی توجیہ وہ ہے جو حافظ نے ابن التین کےے حوالے سے فتح الباری میں نقل کی ہے وہ کہتے ہیں:

قوله كذب عدو الله قال ابن التين لم يرد ابن عباس إخراج نوف عن ولاية الله ولكن قلوب العلماء تنفر إذا سمعت غير الحق فيطلقون أمثال هذا الكلام لقصد الزجر والتحذير منه وحقيقته غير مرادة قلت ويجوز أن يكون بن عباس اتهم نوفا في صحة إسلامه فلهذا لم يقل في حق الحر بن قيس هذه المقالة مع تواردهما عليها

اسی کی ایک اور مثال حدیث افک ہے۔ متعدد صحابہ سے مشورے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں تعریضا عبد اللہ بن أبی بن سلول (جو کہ خزرج میں سے تھا) کا ذکر فرمایا تو حضرت سعد بن معاذ (اوسی) نے عرض کیا يا رسول الله آپ بتلائیے اگر وہ خزرج میں سے ہوا تو ہم اسے قتل کردیں گے اوس میں سے ہوا تو بھی جو حکم ہوگا پورا کریں گے، اس پر سعد بن عبادۃ کا جواب اور ہونے والی بحث کا ذکر بخاری میں ان الفاظ میں ہے:

فقام رجل من الخزرج، وكانت أم حسان بنت عمه من فخذه، وهو سعد بن عبادة، وهو سيد الخزرج، قالت [أی عائشۃ]: وكان قبل ذلك رجلا صالحا، ولكن احتملته الحمية، فقال لسعد: كذبت لعمر الله لا تقتله، ولا تقدر على قتله، ولو كان من رهطك ما أحببت أن يقتل. فقام أسيد بن حضير، وهو ابن عم سعد، فقال لسعد بن عبادة: كذبت لعمر الله لنقتلنه، فإنك منافق تجادل عن المنافقين، قالت: فثار الحيان الأوس، والخزرج حتى هموا أن يقتتلوا، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر، قالت: فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم، حتى سكتوا وسكت

سقیفہ بنوساعدہ میں بھی ہونے والا بعض الفاظ کا تبادلہ اہل علم جانتے ہیں، اس طرح کے واقعات اور بھی کافی جمع کئے جاسکتے ہیں، لیکن اپنی ذات میں بڑی تعداد ہونے کے باوجود ہماری پوری علمی روایت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ اس طرح کے واقعات کا سبق یہ ہے کہ کسی سے طیش میں اس طرح کی بات ہوجائے تو اس کا عذر تلاش کرلیا جائے لیکن کوشش ہمیشہ اس سے بچنے کی جائے۔ اسی سلسلے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب حیات ممات کا مسئلہ زوروں پر تھا تو ایک بحث میں ایک طرف کے عالم نے دوسری طرف کے عالم کے تھپڑ بھی مار دیا تھا۔ حالانکہ بحثیت مجموعی وہ بزرگ بہت دھیمے مزاج کے اور بہت ٹھنڈے انداز سے بات سمجھانے کے ماہر اور عادی تھے۔
گذ شتہ دنوں اسی سلسلے میں کسی نے حضرت ابن زبیر اور حضرت ابن عباس کی نوک جھونک کا ذکر کیا جو متعہ کے بارے میں ہے۔ وہاں بھی سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ صحیح مسلم میں یہ روایت ان لفظوں سے آئی ہے:
قال ابن شهاب: أخبرني عروة بن الزبير، أن عبد الله بن الزبير، قام بمكة، فقال:«إن ناسا أعمى الله قلوبهم، كما أعمى أبصارهم، يفتون بالمتعة»، يعرض برجل، فناداه، فقال: إنك لجلف جاف، فلعمري، لقد كانت المتعة تفعل على عهد إمام المتقين – يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم – فقال له ابن الزبير: «فجرب بنفسك، فوالله، لئن فعلتها لأرجمنك بأحجارك»

اس پر ایک صاحب علم نے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شیعہ کی گھڑی ہوئی روایت ہے جس کے ذریعے صحابہ کی بے ادبی کی جارہی ہے۔ ایک اور نوجوان صاحب علم نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کی طرف توجہ دلائی کہ یہ واقعہ من گھڑت نہیں ہے تو پہلے صاحب نے ابن عباس کی طرح دوسرے کو نوف بکالی بنا ڈالا (اَن فرینڈ کردیا) حالانکہ صحیح مسلم کی روایت میں یعرض برجل کا لفظ اگرچہ مجمل ہے لیکن دیگر قرائن سے تقریبا یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ مراد ابن عباس ہی ہیں۔ یہ محدثین کا طرز رہا ہے کہ بعض حضرات ایسے مواقع پر نام حذف کرکے ’’رجل‘‘ ، ’’فلان‘‘ یا ’’کذا وکذا‘‘ وغیرہ کہہ دیتے ہیں، امام بخاری نے تو یہ اسلوب بہت کثرت سے استعمال کیا ہے، بعض دیگر محدثین بھی کبھی ایسا کرلیتے ہیں۔ بیہقی کی السنن الکبری کی ایک روایت میں ابن عباس کا نام بھی موجود ہے۔

اگرچہ یہ روایت مسلم کے درجے کی نہیں ہے لیکن ایک نص میں اجمال ہو اور دوسری میں اس کا بیان آجائے تو وہ اصل نص کے ساتھ ملحق نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی شارح ضرور بن جاتی ہے، نووی بھی مسلم کی مذکورہ روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں يعرض برجل يعني يعرض بابن عباس۔ یہ نہ بھی ہو تو بھی خود مسلم کی روایت میں یفتون بالمتعۃ کے لفظ بتارہے ہیں کسی ایسے صاحب پر تعریض ہورہی ہے جن کا فتوی مکہ میں چلتا تھا اور وہ نابینا بھی تھے، ظاہر ہے کہ اس زمانے کے اعتبار سے وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوگے اور شاید ابن عباس کے علاوہ کوئی اور ہو بھی نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے ابن زبیر نے ابن عباس کا نام نہیں صراحتا نہیں لیا ، لیکن وہ سمجھ گئے کہ مجھ پر تعریض ہے۔ اس لئے أعمی اللہ قلوبہم کما أعمی أبصارہم کے لفظ محتاجِ توجیہ تو ہیں۔ میرے خیال میں جلدی میں یہ سمجھ بیٹھنا کہ ہمارا دل تو عظمت صحابہ سے لبریز ہے دوسروں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے نظرثانی چاہتا ہے۔ جنہوں نے اس واقعے کا ذکر کیا ہے ان کا مقصد بھی ان سے استدلال کرنا ہی ہے کہ بڑوں سے بھی ابیسا ہوجاتا ہے ، ایسے موقع پر بطور استدلال ظاہر ہے مقتدا شخصیت کا ہی ذکر ہوگا عام آدمی کا تو نہیں۔

اگر اس خاص واقعے کا سرے سے انکار ہی کردیں تب بھی دیگر متعدد واقعات کا کیا بنے گا۔ اس لئے ایسے واقعات کے بارے میں اصل اصول وہی ہے کہ جو اوپر ہم نے ذکر کیا کہ ان واقعات کی بنیاد پر اس طرح کی باتوں کا مستقل جواز بھی نہ نکالا جائے اور ان حضرات کو بدزبان یا بد اخلاق وغیرہ بھی نہ کہا جائے، ان سے صرف اتنا سبق حاصل کیا جائے کہ جب اتنے بڑے بڑے لوگوں سے فرط جذبات یا اس طرح کی کسی اور خاص کیفیت کی وجہ سے ایسا ہوسکتا ہے تو آج کے کسی صاحب علم سے اگر ایسا ہوجائے اور وہ اس کا عادی نہ ہو تو اسے بھی معذور سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔ گویا ان واقعات کا استعمال دوسروں کے لئے التماس عذر کے لئے کیا جائے۔ اسی اصول کی بنیاد جن صاحب علم نے اس واقعے کے ذکر پر شدید ناگواری کا اظہار کیا ہے اسے بدات خود درست نہ سمجھتے ان کے جذبۂ خیر پر محمول کرتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے