کشمیر سپر لیگ ۔۔۔ نتیجہ ندارد

پاکستان اور بھارت کے مابین گز شتہ 70 سال سے کشمیر پر کھیل کھیلاجا رہا ہے ۔ وادی کشمیر میں جاری اس میچ میں 5 لاکھ کشمیریوں کی بلی چڑ ھائے جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ۔ اس میچ کی دلچسپ بات یہ کہ میچ شروع کیے جا نے کے کچھ عر صہ بعد ایمپائر مقرر کیا گیا اور دونوں اطراف سے اپنی مرضی کے قوانین بنائے گئے ۔دوسر ے لفظوں میں ایمپائر تو مقرر کر دیا گیا مگر اختیارات اپنے پاس رکھے گئے ہیں ۔

میچ کے ابتدائی اوور میں دو طرفہ جا ر حا نہ کھیل پیش کیا گیا ۔ایک دوسرے کو زیر کر نے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ دھوکہ دہی ،جھوٹ، فریب سے کام لیا گیا مگر جب کسی بھی فریق کوکامیا بی کی اُمید نظر نہ آئی تو ایمپائر سے رجو ع کیا ۔ یوں اس میچ میں ”پاور پلے “کی صورتحال چھٹ گئی ۔ لیکن تناﺅ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا ۔

کچھ اوور گز رنے کے بعد پاکستان کی جانب سے آپر یشن جبر الٹر کے ذریعے میچ کا پانسہ پلٹنے کی کوشش ہوئی تو بھارت نے “ سلپ“ پرہٹ لگا دی اور یو ں یہ آپر یشن بھی نا کام و نا مراد گزر گیا۔ عمل اور رد عمل کے اس کھیل کو ایک معائدہ جسے ”معائدہ تاشقند“ کے نام سے جا نا جا تا ہے میں بند کر دیا مگر اس دوران بھارتی ٹیم کا سول کپتان خوشی سے وفا ت پاگیا جبکہ ایک پاکستا نی کھلا ڑی نے اس سا رے عمل سے بغا وت کر دی ۔ بعد ازاں اس با غی کھلاڑی کو بھی باغی پن کی پوری پو ری سز ادی گئی ۔

1965ءکی جا رحانہ اننگ کے بعد 5 بر س قدرے اطمینان سے گز رے اور اس دوران معمول کا کھیل جا ری رہا ۔1971ءمیں دونوں ٹیموں نے بنگلہ دیش میں ٹی ٹوینٹی کھیلاجس میں پاکستان کو ناک آﺅ ٹ کا سامنا کر نا پڑا ۔ پاکستان میں با غی کو اقتدار مل گیا مگر کشمیر پر دھمیے انداز میں اننگ جا ری رہی۔ 1988میں با غی کو انجام تک پہنچانے والے جنر ل ضیا ءالحق کی کپتا نی میں کشمیر پر جا ری میچ جیتنے کیلئے حکمت عمل تبدیل کی ۔ تماشا ئیوں کو بھی اس میچ میں حصہ دار بنا نے کی حکمت عمل مر تب کی لیکن جنرل مرحوم کی زندگی میں اس پر عمل نہ ہو سکا انکی وفات کے بعد اس حکمت عمل پر عمل کام کا آغاز ہو ا۔

1989میں تماشائیوں نے میچ پر اثر انداز ہو نے کی کو شش کی توان کا قتل عام شروع کر دیا ۔ تماشائیوں کے سردار پیسے اور شاباشی بٹو رتے رہے مگر عام عوام مر تے رہے۔ پاکستانی ٹیم کے بظاہر کپتان بدلتے رہے مگر کشمیر پالیسی کے کو چ نے پا لیسی نہیں بد لنے دی تا وقتکہ کو چ نے از خود کپتانی سنبھال کر اسے تبد یل نہ کیا ۔

مشرف دور میں کشمیر کے مید ان سے گمنام قبروں کی دریافت ہو ئیں۔ ہنگامہ آرائی میں لا پتہ ہو نے والے نماشائیوں کے لو احقین اجتماعی قریں دیکھ کر مطمئن ہو گئے کہ جو چلا گیا اسے اب دوبارہ واپس نہیں آنا لہذا نئی زندگی شروع کی جا ئے ۔تماشائی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے ۔ مگر اس دوران پاکستانی ٹیم کی کپتانی سول اور کو چنگ دوبارہ سے پالیسی سازوں کے ہا تھ میں آگئی۔

2010 میں ہنگامے ہو ئے پو حا لات قدر سے بہتر ہو گئے ۔ لیکن اب کی بارتو دو طرقہ حا ر حانہ پن دکھایا جا رہا ہے اور کشمیر کے تما شائی کٹ رہے ہیں ۔تازہ ہنگاموں میں سو سے زائد افر ار لقمہ اجل بنا دے مگر میچ ابھی جا ری ہے ۔ریفری بے بس ہے ۔تھرڈ ایمپائر بھی آنکھیں جھکائے بیٹھا ہے کیونکہ ان کے پاس کسی کو ان اور آوٹ کرنے کا اختیار ہی نہیں ۔ان آوٹ کا اختیار کھلاڑیوں نے آپس میں بانٹ رکھاہے زور آزمائی پر ایک دوسرے کو ناک آوٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر 70سال سے کسی کو بھی کامیابی نہیں ملی ۔

اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو اگلے ہزار برس تک بھی ان میں سے کوئی آوٹ نہیں ہو گا۔اور تماشائی وادی کشمیر کے میدان میں گرتے رہیں گے ،مرتے رہیں گے ۔ پچھلی نشستوں پر براجمان گلگت بلتستان ،جموں ،لداخ ،مظفرآباد کے تماشائی خاموش رہنے کے باعث شر سے محفوظ ہیں لیکن قتل عام پر احتجاج کرنے پر انہیں بھی کاٹ دے جانے کا ڈر موجود ہے کیونکہ کھلاڑیوں کو انسان نہیں صرف زمین چاہیے ۔کھیل ابھی جاری ہے ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے