جنگ نہیں عوامی فلاح لازم ہے

من زندگی کی مسرتوں خوشیوں اور قہقہوں کا نہ صرف ضامن ہوتا ہے بلکہ مجموعی معاشرتی سوچ کی پختگی اور شائستگی بھی اسی کی مرہون منت ہوتی ہے. جنگیں تباہی اور موت کے اندھیروں کی جانب سفر کا ایک راستہ ہوتا ہے .جنگی جنون یا جنگوں کا خبط معاشروں کو تباہی و بربادی کی جانب لے جاتا ہے.

اڑی حملے کے بعد ہندوستان کے شدت پسنوں میڈیا اور حکومت نے جس طرح کا وار ہسٹریا پورے ہندوستان میں قائم کیا وہ نہ صرف انتہائی غیر زمہ دارانہ بھونڈا اور گرا ہوا تھا بلکہ اقوام عالم میں بھی اس کی دبے الفاظ میں مذمت کی گئی. دوسری جانب ہمارے ہاں بھی جنگی جنون کے خبط میں مبتلا دانشوروں نے کوئی کثر نہ چھوڑی کہ کسی بھی صورت بس جنگ ہو کر رہے.

کچھ مہربان دانشور اسے غزوہ ہند بنانے پر مصر نظرآئے اور کچھ حضرات اسے فیصلہ کن ایٹمی جنگ بنانے پر آمادہ دکھائی دئیے. دونوں ممالک کی ایٹمی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی متوازن ذہن کا تجزیہ کار یہ بات باآسانی بتا سکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے مابین روایتی جنگ کا کوئی بھی خاص خطرہ موجود نہیں.البتہ دونوں ممالک پراکسی وار کے ذریعے ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہیں گے.اور ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں اپنے اپنے ممالک میں بستے کڑوڑہا افراد کو مفلسی غربت اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مقید رکھیں گے.

پاکستان ہو یا ہندوستان دونوں ممالک کی کثیر آبادی بنیادی صحت تعلیم یا روزگار کے مواقعوں سے بھی محروم ہے لیکن نفرتوں کے سوداگروں نے کچھ اس طرح سے نفرتوں کے بیج ہوئے ہیں کہ یہ برصضیر پاک و ہند کے باشندے اسی غربت اور جہالت کے اندھیروں میں خوش رہتے ہوئے بس ایٹم بم یا میزائلوں کے تجربات پر تالیاں مار کر خوش ہو جاتے ہیں.گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے ہیں لیکن اگنی ہتف یا غوری میزائلوں کے تجربات پر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے بس اب یہی میزائل ان کی غربت کو دور بھگا کر ان کے تمام مسائل کا خاتمہ کر دیں گے. دونوں ممالک کی اشرافیہ جانتی ہے کہ جنگی ماحول بنائے رکھنے اور ایک دوسرے سے نفرت کا رشتہ استوار رکھنے سے ہی اربوں ڈالرز کی ہتھیاروں کی انڈسٹری کا رواں دواں رہنا ممکن ہے اور ان اربوں ڈالرز میں سے کھائے گئے کک بیکس اور کمیشن کا نہ تو کوئی حساب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا.

عالمی طاقتوں کو بھی اسلحہ بیچنے کیلئے دونوں ممالک کی منڈیاں بے حد موزوں ہیں اس لیئے وہ بھی خاموشی سے ہتھیار ان دونوں ممالک کو بیچے جاتے ہیں. الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ اور ٹی آر پی کے چکر میں جنگی جنون کو مزید بڑھاتا ہی رہتا ہے اور نام نہاد دفاعی و مذہبی تجزیہ کار دونوں طرف کے عوام کو کبھی دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرانے کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں تو کبھی لاہور کو فتح کرنے کی یقین دہانیاں کروا رہے ہوتے ہیں. جنونی ذہنوں کو ایک خاص سوچ اور پراپیگینڈے کے تابع کرنا انتہائی آسان ہوتا ہے کیونکہ نہ تو وہ کچھ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کچھ دیکھنے کی.

سرحدیں قوموں اور ملکوں کی جغرافیائی شناخت کو قائم رکھنے کیلئے ہوتی ہیں نا کہ ایک دوسرے کو دنیا کے جغرافیے سے مٹانے کے عزائم کیلئے. لیکن ذہنوں میں جنگوں کی عظمت کے بیج بو کر ایک ایسی سوچ دونوں جانب تیار کر دی گئی ہے جو 21ویں صدی میں بھی شعور و آگہی کی تمنا کے بجائے مرنے اور مارنے کی آرزو رکھتے ہیں. سب سے افسوس ناک پہلو دونوں ممالک کی ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے تجزیہ نگار اور مذہبی شدت پسند ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام بخوبی انجام دیتے ہیں. دہلی ہو یا اسلام آباد ممبئی ہو یا کراچی ان شہروں میں بسنے والے آخر کو تو انسان ہی ہیں اور سب زندگی کی دھوپ میں اپنے اپنے رشتوں کی چاؤں میں چند لمحے سستاتے ہیں.ان کے یہ چند لمحات برباد کرنے کا حق نہ تو کسی جنگی جنونی تجزیہ نگار کے پاس ہے اور نہ کسی شدت پسند کے پاس. کشمیر کا مسئلہ جنگ سے حل ہو سکتا تو یہ کب کا پو چکا ہوتا نہ تو پاک بھارت کے درمیان گزشتہ جنگیں کشمیر کو آزاد کروا سکیں اور نہ ہی کشمیر کو "مجاہدین” کے زور پر آزاد کروایا جا سکا اسی طرح نہ تو بھارت کشمیر میں کٹھ پتلی سیاسی حکومت کے دم پر کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو دبا سکا اور نہ ہی جبر اور طاقت سے کشمیریوں کی آواز کو دبا سکا.

بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر گفت و شنید سے کشمیریوں کی مرضی سے حل نکالنے کے اس مسئلے کو بنیاد بنا کر دونوں ممالک دفاعی اخراجات کی مد میں اربوں روپے ضائع کرتے ہیں اور نتیجتا بحال افلاس اور جہالت میں گھرے رہتے ہیں.ایک دوسرے سے پراکسی جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک بدامنی کا شکار بھی رہتے پیں اور لاتعداد دہشت گردی کے واقعات میں نہتے شہریوں کی جانیں بھی ضائع کرتے ہیں. چلیے سیاست دان اور ایسٹیبلشمنٹ کو تو اس جنگ سے فائدہ بھی پوتا ہے اور ایسا ماحول انہیں موافق بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اس سے کیا ملتا ہے.

لتا منگیشکر کے گانے سنتے اور سنی لیون کی فلمیں دیکھتے بھارت کو نیست و نابود کرنے کے دعوے کچھ بے معنی اور مضحکہ خیز دکھائی دیتے ہیں.اسی طرح راحت فتح علی کی سریلی آواز سے محضوظ ہوتے اور فواد خان کی فملیً دیکھنے والے جب پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرتے ہیں تو انتہائی بھونڈے لگتے ہیں. جو معاشرے موسیقی سے لیکر آرٹس اور ثقافت کی کئی صدیوں پر مبنی مشترکہ قدریں رکھتے ہوں انہیں بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیار اور امن بڑھانا چاھیے اور اپنی اپنی حکومتوں پر دباو ڈالنا چاھیے کہ مسائل کے حل کیلئے بات چیت کرتے رہیں . دنیا کی بڑی سے بڑی جنگوں کا اختتام بھی بالآخر ٹیبل ٹاک یعنی مذاکرات پر بھی ہوتا ہے.

اس بنیادی نقطے کو نہ سمجھ کر ہم نے کئی نسلیں ایک دوسرے سے نفرتوں کی آگ میں جھونک دی ہیں اب اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم دونوں ممالک کو نفرتوں کا پرچار بند کرنا ہو گا. ایک دوسرے کے ساتھ نہیں تو کم سے کم اپنے اپنے ملک کی عوام سے مخلص ہوتے هوئے جنگوں ہتھیاروں اور پراکسی وارز کے بجائے ان کی صحت تعلیم اور غربت پر تو وسائل خرچ کیئے جا سکتے ہیں. امن بہت سستا ہوتا ہے اور زندگی کے دوام کا ضامن ہوتا ہے جبکہ جنگیں نہ صرف بے حد مہنگی ہوتی ہیں بلکہ موت کے اندھیروں کا اعلان بھی ہوتی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے