صحافی کس کا در کھٹکھٹائیں؟

اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ دنیا میں کون سا پیشہ حالات کے اعتبار سے بدترین ہے تو شاید آپ سوچنا شروع کردیں اور بڑی مغز ماری کے بعد کوئی نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں . ہم آپ کو بتاہی دیتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بدقسمت شعبہ صحافت کا ہے اور صحافی سب سے بد قسمت پیشہ ور ہے جو ایک شاندار کام کرنے کے بعد ایک بے حد مشکل زندگی گذارتے ہیں . ان کے پاس نوکری ہوتے ہوئے بھی کوئی اختیار نہیں ہوتا ‘ اس کے علاوہ انھیں اپنے پیشہ سے انصاف کرنے کیلئے کافی خطرہ مول لینا پڑتا ہے .اس شعبے سے وابستہ کارکن مفلوک الحال ہیں۔یہ کھلے عام قتل بھی ہوتے ہیں اور سسک سسک کر مربھی رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں صحافیوں کی بہت سی قسمیں ہیں مگر دو زیادہ تر مشہور ہیں جس میں ایک کو ہم خوشحال صحافیوں کے زمرے میں ڈالیں گے جبکہ دوسروں کو عام صحافی کے زمرے میں ڈالیں گے .عام صحافی پڑھا لکھا ہوکر بھی سڑک پر کھڑے مزدور سے کم اجرت پر نوکری کرتا اور وہی جلسے جلوسوں میں مرتااور زخمی ہوتا ہے۔ ریاست بچانے اور قوم کو دہشت گردی کے خلاف کھڑا کرنے اور اس کاشعور اجاگر کرنے سمیت بہت سے مثبت اور جرات مندانہ کام ان عام صحافیوں کی قدروقیمت میں اضافہ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں عام صحافی بہت زیادہ غیر محفوظ ہوچکے ہیں،اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

آج اگرپاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے تو اس میں صحافیوں کا نمایاں کردار ہے۔کرپٹ مافیاﺅں سے ٹکر لے کروہ جان سے بھی گذرجاتے ہیں گویا آج کے صحافی ملک کی فکری اور نظریاتی ہی نہیں جغرافیائی سرحدوں کے بھی امین بن چکے ہیں حالانکہ یہ کام پولیس اور عسکری ادارے سرانجام دے کربے پناہ مالی مراعات لیتے اور آسودہ زندگی کا خواب پورا کرتے ہیں لیکن صحافی کو نہ اسٹیٹ کی جانب سے اور نہ ہی سیٹھ یامالک کی طرف سے جان ومال کا تحفظ ملتا ہے۔

ہمارے پالیسی ساز اور ملک کی سلامتی کے ادارے اس بات کا قطعاً خیال نہیں رکھ رہے کہ جب دنیا بدل رہی ہے تو ملکوں کو صرف عسکری بنیادوں پر محفوظ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسٹریٹجک وار اور نیشنل پروفائلز کے لئے میڈیا کو فرنٹ لائن پر کھڑا کرنا ضروری ہوگیاہے۔کچھ دن پہلے پشاور کے ایک موقر انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیو ن سے دو صحافیوں کو بے دخل کردیا گیا، جن میں شمیم شاہد اور ایک خاتون صحافی شامل ہیں اور پشاور کے صفحات بھی کم کردیئے گئے جبکہ ملک بھر کے تمام بیوروز سے چالیس سے زیادہ صحافیوں کو گھر کی راہ دکھا دی گئی ہے ،ایسا لگتا ہے کہ کچھ دنوں میں وہ پشاور کا بیورو بھی ختم کردیں گے اور اس میں موجود سٹاف کو بھی فراغت کے پروانے دے دیئے جائیں گے اور یوں وہ خاموشی سے بوریا بستر سمیٹ کر چلے جائیں گے اور پھر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا

صحافتی تنظیمں تو کام کر رہی ہیں مگر ان کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے ،وہ عام صحافی کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالیں گی . اس طرح ماضی میں بھی اداروں نے کیا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہوا ،کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر صحافی بھی انسان ہے ،ان کی بھی عزت ہے ، وہ بھی خاندان کے واحد کمانے والے ہوسکتے ہیں مگر میڈیا مالکان کو اس کی پرواہ کب ہے . ایکسپریس ٹریبیون جو کہ لاکھانی گروپ کا اخبار ہے جن کی سو سے زیادہ پراڈکٹس ہیں اور یہ اخبارات کا دھندہ صرف خانہ پری اور دھاک بٹھانے کے لئے شروع کیا گیا تھا ،. ملٹی نیشنل کمپنیوں میں حصص بھی ان کے وسیع کاروبار کا حصہ ہیں ، اردو اخبار سمیت ان کا ٹی وی چینل بھی کام کررہا ہے ، انگلش ٹی وی چینل کوبند کردیا گیا پھر نیویارک ٹائم کے ساتھ معاہدہ طے پایا گیا اور یہ نیویارک ٹائم کے پارٹنر بن گئے

اس ایکسپریس ٹریبیون اخبار نے بہت کم وقت میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور لوگ اسے ڈان اور نیوز کے ہم پلہ سمجھنے لگے مگر اچانک صحافی کش پالیسی سے ہمارے دوستوں میں بے چینی پھیل گئی ہے اور گزشتہ کئی دنوں سے وہ پریشانی کا شکار ہیں کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟ ہم کہاں جائیں گے؟ ملازمتیں کہاں ہیں؟ اور یہ واقعی سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے ان دوستوں کے فلاح اور تحفظ کے لئے کوئی مستقل اقدام نظر نہیں آتا حالانکہ صحافیوں کے خون سے مالک اور مالک کی ترقی کے چراغ جل اٹھتے ہیں مگر خود ان کے گھر کا دیا بجھا ہوتا ہے۔

صحافیوں کو مالی تحفظ فراہم کرنے کے لئے عدالتیں اور ویج بورڈ پائیدار کام کرسکتے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ ویج بورڈ ٹربیونل کی کارکردگی انتہائی سست اور کارکن دشمن ہوچکی ہے۔دوسری جانب عدالتوں میں انصاف کے لئے دھکے کھاتے کارکنوں کی حالت زار ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ کرپٹ عدالتی نظام ان کے کیسوں کو سالہا سال تک لٹکاتا ہے تو ظالم میڈیا مالکان عدالتی اور حکومتی رسوخ کو ان کے خلاف استعمال کرنے میں لحاظ نہیں کرتے۔

میڈیا مالکان ملک کے قانون اور انسانی حقوق کی کوئی پراوہ نہیں کرتے اور اس کا اندازہ ایک عام شخص کو بھی ہے۔میڈیا مالکان کی کارکن کشی کا ایک حل بڑا سادہ ہے۔پاکستان میں بہت سے میڈیا ہاوسز جنہیں سیاسی حکومتیں اشتہارات سے مالا مال کرتی ہیں اور وہ دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں،انہیں لیبر لا کا پابند اور ویج بورڈ کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ ماہانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں لیکن یہ کئی کئی ماہ تک کارکنوں کو تنخواہ نہیں دیتے۔

عام طور پرزیادہ ترمیڈیا ہاﺅسزکارکن صحافیوں کو بنیادی قانونی حقوق بھی نہیں دیتے۔ حکومت چاہے تو سرکاری اشتہارات کو کارکنوں کو دی جانے والی مکمل قانونی مراعات سے مشروط کرسکتی ہے اور ویج بورڈ میں قابل اور دیانتدار چیئرمین تعینات کردیا جائے تو صحافیوں کے گھروں کے چولہے جلنا شروع ہوجائیں گے اور یہ جو میڈیا مالکان کی کارکن کش پالیسی ہے اس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے