ایم کیو ایم کی سیاسی چال!

ایم کیو ایم پاکستان کی چوتھی بڑی جماعت ہے اس کو الیکشن 2013 میں 24لاکھ 22ہزار 656 لوگوں نے ووٹ دئے، الیکشن 2013 میں عوام نے متحدہ کے 24 ممبر قومی اسمبلی 51 ارکان سندھ اسمبلی کا انتخاب کیا۔ ایم کیو ایم کے پاس پارلیمنٹ میں تقریبآً 80 ارکان ہیں۔ لیکن سوال اب یہ پیدا ہورہا ہے کہ یہ مینڈیٹ کس کا ہے۔

22 اگست کے بعد ایم کیو ایم میں جو کچھ ہوا وہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لئے ایک نعمت سے زیادہ کچھ نہیں، 22 اگست سے پہلے یہ تاثر تھا کہ ایم کیو ایم میں الطاف حسین سے کوئی سوال نہیں کرسکتا لیکن یہ تاثر 22 اگست کے بعد تبدیل ہوا یا پھر یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ الطاف حسین اور ایم کیوا یم دو الگ چیزیں ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ22 اگست کو الطاف حسین نے وہ کیا کہا جو انھوں نے اس سے پہلے نہیں کہا تھا۔ الطاف حسین کی تقاریر پر پچھلے سال 31 اگست کو لاہور ہائی کورٹ نے پابندی لگائی ، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے یہ پابندی اس لئے لگائی گئی کہ الطاف حسین ریاست اور ریاستی اداروں کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ قابل قبول نہیں لیکن اس پابندی کا کیا ہوا ؟ کیا الطاف حسین خاموش ہوگئے ؟ کیا اُس ایک سال میں جب سے الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی لگی الطاف حسین خاموش ہوگئے اس عرصے میں کیا انھوں نے ریاست پاکستان اور ریاستی اداروں کے بارے میں ہرزا سرائی نہیں کی ؟ نہیں ایسا باکل نہیں ہے ،الطاف حسین پابندی کے باوجود وہی کچھ کہتے رہے جو وہ اپنی تقاریر میں پابندی سے پہلے کہتے تھے، تو پھر 22 اگست کو کیا ہوا؟

22 اگست کو جو کچھ ہوا وہ تو اہم ہے لیکن 31 اگست 2015 کے بعد سے بہت کچھ ہوا۔ 3 مارچ کو اس سال جب مصطفی کمال اور انیس قائم خانی منظر عام پر آئے تو یہ الطاف حسین کے لئے ایک چیلنج تھا وہ تقاریر تو کر نہیں سکتے تھے لہذا اُن کی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے بارے میں رائے بھی ٹی وی چینلز کا حصہ نہیں بنی۔

3 مارچ کے بعد جس طرح مصطفی کمال نے الطاف حسین کو اپنے نشا نے پر رکھا اور اُن پر بھارتی خفیہ ایجنسی کے ساتھہ ملکر پاکستان اور مہاجروں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا اس کا دفاع کرنا ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت کے لئے نامکن تھا، اس صورتحال میں ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود پالیمنٹرین کے لئے مشکل تھا کہ وہ کس طرح بتائیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کیا کہہ رہے ہیں، مصطفی کمال نے ایم کیو ایم پاکستان کے لئے جو سب سے اچھا کام کیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے تمام خامیوں کا زمہ دار الطاف حسین اور لندن میں موجود ایم کیو ایم قیادت کو تھرایا ، لہذا 22 اگست کو فاروق ستار کو موقع ملا کہ وہ لندن قیادت کو سمجھائیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپنا ووٹ بچایا جائے اور الطاف حسین کو اگلے کئی ماہ کے لئے مائنس کردیا جائے۔

وہ ایم کیو ایم جو بار بارمائنس ون کی مخالفت کرتی تھی اُس نے خود فیصلہ کیا کہ ان حالات میں جب مصطفی کمال اُن کے لئے ایک سیاسی چیلنج ہے مائنس ون فارمولے سے زیادہ مفید کوئی فارمولا نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین سے شکایت تھی، مصطفی کمال الطاف حسین کو را کا اینجٹ کہہ کر اپنا ووٹ پکا کرنےکی کوشش کررہے تھے اور حکومت کو بھی مشکل تھی کہ الطاف حسین کے ہوتے ہوئے ایم کیو ایم کو کیسے سیاسی اسپیس دیا جائے لہذا متحدہ نے متحد ہوکر الطاف حسین کو ہی اپنے آپ سے الگ کردیا

اس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوا۔ اُس پارٹی کو جسے بنے 9 ماہ بھی پوری نہیں ہوئے۔ایم کیو ایم نے ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کرکے مصطفی کمال کا منہ بند کردیا اب اُن کے پاس پریس کانفرنس کرکے الزام لگانے کے لئے کوئی نہیں اور اگر مصطفی کمال اب بھی الطاف حسین پر الزامات لگاتے ہیں تو اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ اب ان کی پریس کانفرنس کے بعد ایک اور ہنگامی پریس کانفرنس نہیں کی جائے گی کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کا اب الطاف حسین سے بظاہر کوئی تعلق نہیں۔

تمام ارکان پارلیمنٹ فاروق ستار کے ساتھ ہیں اور فاروق ستار اپنے قائد کے ساتھ قائد کا حکم ہوگا تو ارکان استعفی بھی دیں گے اور قائد کا حکم ہوگا تو ارکان فاروق ستار کی اطاعت بھی کریں گے کیونکہ یہی ایم کیو ایم کی سیاسی چال ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے