وہ اپنے احساس کی بیداری سے بہت پریشان تھا۔۔۔بہت کم ہی ایسا ہو پاتا کہ وہ اپنے آپ کو حالتِ سکون میں پاتا۔۔۔ایک مدت تک تو یہ بات اس پر اشکارہ نہ ہو سکی کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔یا بیت رہا ہے۔۔۔علاج معالجے سے بھی بات بنتی نظر نہ آئی ۔۔۔کیفیت جھنجھلاہٹ میں بدلنے لگی۔۔۔آخر ایسا کون سا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔۔۔دم درود بھی کچھ کام نہ آئے۔۔۔اسے ایسا کیا ہوا تھا جوہر سمجھ سے بالا ترتھا۔۔۔
عجیب شخص تھا ۔۔۔کسی کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھتا تو زیادتی کرنے والے سے لڑنے کو مچل جاتا۔۔۔راستوں میں بغیر ڈھکن کے گٹر اسے بہت تنگ کرتے تھے۔۔۔جگہ جگہ کچرے کے ڈھیراور ان ڈھیروں میں سے کھانے کی اشیاء چن چن کراپنی بھوک مٹاتے معصوم بچے۔۔۔گاڑیوں میں جانوروں کی طرح لدے لوگ۔۔۔عورتوں ، بزرگوں اور بچوں کی بے ادبی۔۔۔گھنٹوں سڑک کے دوسرے کنارے کھڑے گاڑیوں کے رکنے کہ منتظرافراد ۔۔۔اچانک کسی گاڑی کی ٹکر لگنے سے آنے والی دل خراش چیخ۔۔۔ایمبولینسوں کے سائرن۔۔۔ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لائنیں اور کسی مسیحایا پرسانِ حال کا نظر نہ آنا۔۔۔آہوں اور سسکیوں کی آوازیں۔۔۔دواؤں کے اسٹور کے باہر دواؤں کا پرچہ لئے کوئی عورت آنکھوں میں آنسولئے مدد کی بھیک مانگتی۔۔۔حسرت سے بھری آنکھوں سے پھلوں سے بھرے کسی کے ہاتھ میں پکڑے تھیلے کو دیکھتا بچہ۔۔۔کسی گیرج میں ایک چھوٹا ساگالیاں کھاتا چھوٹا۔۔۔ اخباروں کی سرخیوں میں حوا کی بیٹی کی عصمت درازی کی داستانیں۔۔۔عصمت فروشی کے قصے۔۔۔ایک ہی خاندان کہ چھ افراد کا ایک ساتھ ڈوب جانا ۔۔۔ایک ہی خاندان کے تین لوگوں کا کسی فیکٹری میں جل کا خاک ہوجانا۔۔۔عیدتہوار پر کسی معصوم کو پرانے کپڑوں میں دیکھنا۔۔۔اپنے پاک وطن کی آزادی کا جشن قید میں منانا۔۔۔حق بات سے لوگوں کی نا آشنائی۔۔۔لبوں پر حاکمِ وقت کے تالے ۔۔۔صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے پر پابندی۔۔۔بارش سے سیلاب میں بہہ جانے والوں کو وہ کہاں ڈھونڈتا۔۔۔
اسے بدتہذیب لوگ نا پسند تھے مگر وہ انہی کے بیچ رہتا تھا۔۔۔وہ انہیں کیسے سدھارتا۔۔۔وہ چاہتا تھا دوہرا تعلیمی نظام ختم ہو۔۔۔سارے اسکول ایک جیسے ہوں ۔۔۔بچوں میں کمتری اور برتری نہ ہو۔۔۔سارے بچے یکساں مزاج لے کر بڑھے ہوں ۔۔۔سارے بچے ایک جیسے ہوں۔۔۔ملک و قوم کے صحیح معنوں میں معمار بنیں۔۔۔یہاں تک کہ۔۔۔ اسے ہر آنکھ میں کوئی نہ کوئی سوال نظر آتا ۔۔۔اور یوں لگتا جسے وہ آنکھ اسی کو دیکھ رہی ہے۔۔۔اور جو سوال ہے وہ اسے سے کر رہی ہے ۔۔۔اسے لگتا ہر کوئی اس سے پوچھ رہا ہے تم یہ سب کب صحیح کرو گے۔۔۔تم مجھے میرا حق کب دلاؤ گے۔۔۔وہ ان سوالوں کہ جواب کہاں ڈھونڈتا ۔۔۔وہ ان سوالوں کہ جواب کس سے پوچھتا۔۔۔وہ تھکن زدہ نظر آنے لگا تھا۔۔۔وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں بھاگ پارہا تھا ۔۔۔وہ اپنی ہمت اور حوصلے کہ بل پر جہاں تک چل سکا چلا ۔۔۔وہ اس وقت میں قید ہوگیا جو اسے ختم کرنے پر بضد تھا۔۔۔اور وقت جیت گیا۔۔۔ اسنے اپنے آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔اور خودکشی کرلی ۔۔۔اورآخر کار وہ ابدی نیند سو گیا۔۔۔
عجیب انسان تھا ۔۔۔ سب کو سب کچھ برابری کی بنیاد پر دینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر ایسا کب ہوسکتا ہے۔۔۔نہ جانے یہ سب سوالات کب سے پوچھے جا رہے ہیں۔۔۔وہ تمام سوال آج بھی فضاؤں میں معلق ہیں ۔۔۔اور کوئی نہیں جانتا کب تک رہنگے۔۔۔کم و پیش یہ وہ عوامل تھے۔۔۔یہ وہ سوال تھے ۔۔۔ جو ضمیر کی خودکشی کا سبب بنے ۔۔۔آج بھی معاشرے میں وہی سب کچھ ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ہو رہا ہے ۔۔۔مگر ہم سب بھی اس کی طرح اپنے ضمیر کی لاشیں لئے گھوم رہے ہیں ۔۔۔ ضمیر کی لاشوں کا بوجھ اٹھائے ۔۔۔کوئی مدفن ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ہم در حقیقت معزز جانوروں کی مانند زندگیاں گزار رہے ہیں۔۔۔سوالوں کا کیا ہے وہ تو ہوتے رہے ہیں ۔۔۔اور ہوتے رہنگے۔۔۔یہ کوئی منظر کشی نہیں۔۔۔یہ کوئی لفظوں کا حصار نہیں۔۔۔یہ حقیقت ہے ۔۔۔بس ایک شعر پر اس نہ ختم ہونے و لے مضمون کا اختتام کرونگا ۔۔۔
احساس اگر مٹ نہ جائے تو کافی ہے
انسان کیلئے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
جب کوئی مدفن مل جائے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔۔۔