قیامِ پاکستان سے لے کرآج تک بھارت کے حکمران طبقے کے پاکستان دشمن طرزِ عمل کا خیال کرتا ہوں تو بے ساختہ کسی کا یہ مصرع یاد آنے لگتا ہے کہ:’نہ اُس کی دوستی اچھی نہ اُس کی دشمنی اچھی‘۔ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ بھارت کی انتہا پسند ہندوتنظیمیں نفرت اور دشمنی کے اِس طرزِ عمل کی خوگر ہیں۔چند روز پیشتر دہلی میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے نے اِس پرانے مفروضے کو سراسر غلط ثابت کر دیا ہے۔اِس حملے کی قیادت بھارت کی نام نہاد روشن خیال اور معتدل مزاج حکمراں جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ نوجوان نسل نے کی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریسی نوجوانوں کی وہ نسل بھی پاکستان دشمنی کی اُس روایت کو پروان چڑھانے میں منہمک ہے جو قیامِ پاکستان کے بہت بعد اِس دُنیا میں آئی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کی بھارت کی جانب غیرمعمولی گرمجوشی کا یہ جواب ہمیں بہت کچھ سوچنے اور بہت دُور تک دیکھنے پر مائل کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم امریکہ کی بجائے اپنے ذہن سے سوچیں اور اپنی آنکھ سے دیکھیں۔
جب میں اپنی آنکھ سے دیکھنے اور اپنے ذہن سے سوچنے کی بات کرتا ہوں تو اُس سے میری مراد بانیانِ پاکستان کی آنکھ اور بانیانِ پاکستان ہی کے ذہن سے ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبۂ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اِس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھا تھا کہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے ایمان و اعتقاد کے اعتبار سے برصغیر کے مسلمان اپنے مغرب میں پھیلی ہوئی دُنیائے اسلام کا حصہ ہیں۔مسلمان جغرافیہ دان مسعودی کی اِس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ وادئِ سندھ کی پیٹھ ہندوستان کی جانب ہے اور رُخ وسطِ ایشیاء کی جانب۔ ہمارے ایک اور شاعر ن م راشد نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے والوں کی خام خیالی کو درج ذیل لفظوں میں نمایاں کیا ہے:
’’ایک اور امر جس پر میں نے غور کیا ہے یہ ہے کہ ہم آزادی کے بعد سے نام نہاد Sub-continent کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جیسے ترکی نے اپنی سلطنت کی تباہی کے بعد اپنے آپ کو یورپ سے وابستہ کر لیا تھا۔ کیا ہم مشرقی پاکستا ن کے چلے جانے کے بعد، اپنے آپ کو مشرقِ وسطیٰ سے وابستہ نہیں کر سکتے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سرنوشت کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ زیادہ ہے، ہندوستان کے برصغیر کے ساتھ کم ہے۔ ہندوستان کے ساتھ بندھ جانا ہمارے لیے ایسا ہی ہوگا جیسے بندر اپنے قلندر کے ساتھ بندھا ہوتا ہے۔ اس طرح ہماری تہذیب متواتر پسپائی اختیار کرتی چلی جائے گی۔ ہر قیمت پر ہمیں ہندوستان سے الگ ہو جانا چاہیے کیونکہ ہندوستان میں ایسے عناصر ہمیشہ موجود رہیں گے جو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے Labensrauom کی تلاش میں ہوں اور پھر ہر موقع سے فائدہ اُٹھا کر ہر اُس شخص کا قلع قمع کرتے چلے جائیں جس کے نام میں فارسی اور عربی شامل ہو۔‘‘ (ایک خط سے اقتباس)
اب جو بھارت نے پاکستا ن کے وزیراعظم کی گرمجوشی کا جواب طبلِ جنگ پر چوٹ لگا کر دیا ہے اور ایک ایک دن میں دو دو بار پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر کے دونوں ملکوں کے درمیان اشتعال کی فضا پیدا کر دی گئی ہے تو مجھے اقبال اور راشد کے سے شاعروں کے فکر و تخیّل سے اکتسابِ نور کی سوجھی ہے۔ اقبال کے ذکر پریاد آیا کہ وہ تو تہران کو عالمِ مشرق کا جنیوا بنانے کی دُھن میں تھے مگر آج یہ حال ہے کہ امریکہ جب تک ہمیں اپنے کسی ہمسائے کو ہمسایہ سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا ہم اُسے حقِ ہمسائیگی سے محروم رکھنے پر مُصر رہتے ہیں۔ ایران ہمارا ایسا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں۔ اِس کے باوجود ہم یہ ثابت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں کہ ہم نہیں ہم سے پہلی حکومت نے ایران کو ہمسایہ سمجھنے کے جُرم کا ارتکاب کیا تھا۔ مقتدر حلقے جو چاہیں سمجھیں اور جس سے چاہیں سیکھیں مگرجہاں تک عام پاکستانی کا تعلق ہے وہ تو اندرونِ سندھ کے اُردو شاعر امداد حسینی کا ہم زبان ہے:
ایک آنکھ ایران ہے، دوجی آنکھ عراق
دونوں چاہے نوچنا، مغرب کا قزاق
وہ گر میرا جسم ہے، یہ ہے میری جان
بم برسے بغداد پر، لہو لہو تہران
آج ہماری ایک آنکھ پھوٹ چکی ہے اور دوسری، بحمد للہ،سلامت ہے مگر ہمارے حکمران طبقے کو نہ پھوٹ بہنے والی آنکھ کا غم ہے اور نہ ہی سلامت آنکھ کے تحفظ کی فکر۔ بغداد کی تباہی کے بعد آج مصر وشام میں برپا خانہ جنگی کو بھی ہم امریکہ ہی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ مجھ میں تو جُرأتِ گفتار نہیں ، خودآپ ہی سوچیے کہ فی الحقیقت ہم کس کی آنکھ سے دیکھتے ہیں؟ اِس میں کوئی کلام نہیں کہ ہم سب کو اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ اگر مصر میں فوجی بغاوت کے قائد جنرل اسیسی اپنی آنکھ سے دیکھتے تو اُنھیں سینائی پر ازسرِ نو اسرائیل کے قابض ہو جانے کا اندیشہ فوجی بغاوت سے باز رکھتا۔ اُنھیں خوب معلوم ہے کہ سن ۱۹۶۷ سے لے کر ۱۹۸۲ء تک سینائی پر اسرائیل قابض رہا تھا اور سن بیاسی میں مصری قبضے کے بعد اخوان ، سلفی اور اہلِ سنت والجماعت تنظیموں نے سینائی کی اسلامی شناخت کو بحال کرنے کے بعد اِس علاقے کو مصر کا اٹوٹ انگ بنا دیا تھا۔ اخوان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیے جانے کے بعد اسرائیل کے اشارے پر اب تک سو سوا سو لوگ مارے جا چکے ہیں اور ڈرون حملوں میں ایسی تیزی آئی ہے کہ وہاں سے لوگ ترکِ مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔اِدھر اسرائیل نے سینائی میں دوبارہ اسرائیلیوں کے گھر بنانے کے منصوبے پر عمل کا اعلان کر دیا ہے۔یہاں اِس وقت اِن اسرائیلی عزائم کی تکمیل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اخوان اور دیگر اسلام پسند گروہ ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ عزائم سے اور پہنچی ہے مصر میں اسرائیل کے جارحانہ عزائم تک۔ اِس آغاز و اختتام کا سبب یہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے مغربی حلیفوں کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ عرب دُنیا پر اسرائیل کی بالادستی قائم کی جائے اور اہلِ عجم کو بھارت کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ پُرامن بقائے باہمی ایک مناسب لائحۂ عمل ہے جبکہ بالادستی کا تصور ایک فرعونی تصور ہے۔ کوئی مسلمان کسی بھی فرعونی تصور کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ اقبال نے مسلمانوں کے درمیان ربط و ضبط میں فقط دُنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پورے مشرق کی نجات کی بشارت دی تھی:
ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیاء والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بے خبر!
آج ہماری یہ ’’بے خبری ‘‘اپنی آخری حدود کو چھونے لگی ہے۔آج دُنیائے اسلام کو باہمی جنگ و جدل میں مبتلا کر کے اِس پر خطے کی غیر مسلم طاقتوں کی بالادستی قائم کرنے کی مساعی زوروں پر ہے۔ اِس پر مجھے فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی کتاب Friends, Not Masters کا عنوان یاد آتا ہے۔ موصوف نے جب امریکہ سے آقائی کی بجائے دوستی کا تقاضا شروع کیا تھا تو امریکہ نے اتنا بُرا منایا تھا کہ ایوب خاں کو مسندِ اقتدار سے اُتار پھینکنے کا بندوبست کیا تھا۔ مرحوم ایوب خان کے اِس بُرے انجام میں بھی یہی سبق پوشیدہ ہے کہ دوست ، بے شک ، ہر کسی کو بنایا جائے مگر آقا کسی کو بھی نہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!