"بھاری ستمبر”

سیاست دان پاکستان کے ہوں یا کسی بھی ملک کے، ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ستمبر کو ستم گر بنانے پر مصر ہیں،

تازہ تازہ معاملہ ہے، نومبر میں ہونے والی سارک کانفرنس کا، جس کی سربراہی پاکستان کو ملی،

لیکن بھارت نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا، ایک اچھا پڑوسی اور امن کا پرچار کرنے کی بجائے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان کو ملا کر کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا، نیپال کوبھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہے،

سارک قواعد کے مطابق رکن ملکوں میں سے ایک بھی غیر حاضر ہوا تو سربراہ اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے پاکستان کو 19واں سارک اجلاس جو 9 ، 10 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا، ملتوی کرنا پڑا۔سرکاری ذرائع کے مطابق سارک اجلاس جب بھی ہوگا، تو پاکستان میں ہی ہوگا۔

سارک (جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم) کے رکن ملکوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، نیپال، مالدیپ اور سری لنکا شامل ہیں، جبکہ 9 مبصر ملک "آسٹریلیا،چین، یورپی یونین، ایران، جاپان، ماریشس، میانمار، جنوبی کوریا اور امریکا بھی اس کا حصہ ہیں،
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ سارک کانفرنس کے پلیٹ فارم کا بنیادی مقصد خطے کے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث خطے کے پسے ہوئے عوام مزید پسماندگی کا شکار ہوں گے جب کہ بھارت ہمیشہ سے ہی سارک کانفرنس کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے اور اس بات بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔

بھارت کے منفی رویئے کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹانا ہے جہاں گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران 100 سے زائد کشمیریوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کیا جاچکا ہے۔

بھارت جو مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتاہے،اور7 لاکھ فوجی وہاں برس ہا برس سے اتار کر کشمیر کو چھاونی بنادیا، اسی مقبوضہ کشمیر کے علاقے اڑی میں فرضی حملہ کرادیا اور اپنے ہی سترہ بندے مار دئیے، ناحق خون بہایا اور اسکا الزام ڈال دیا، پاکستان پر۔۔۔

ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر وار کرتی ہے ۔۔۔ لیکن جو دھرتی ماں (بھارت ماتا) اپنے ہی بچے کھا جائے اس کو کیا کہیں گے،

بھارت کیا گُل کھلا رہا ہے، اپنے ملک میں یا دوسروں کی سرحدوں پر دراندازی کرکے، سب نے اس پر آنکھیں موند لیں اور لگے ہیں بھارت کی جے جے کار کرنے۔

پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے دو ہزار 4سو 30 کلومیٹر سرحد افغانستان کے ساتھ، 523 کلومیٹر چین کے ساتھ دو ہزار 9سو 12 بھارت کے ساتھ اور909 ایرانکے ساتھ ہے۔

بنگلہ دیش۔۔۔ صف اول میں ہے، جو پہلے پاکستان کا حصہ تھا،

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کو الگ کرنے کیلئے بھارت نے بی ایس ایف اور را کے ذریعے مکتی باہنی کو تربیت دی اور مالی وسائل فراہم کئے، 1971ء سے لیکر اب تک پاکستان کیخلاف مسلسل پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ جس کا اعتراف بھارت میں کیا جارہا ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار شرمیلا بوس نے2011ء میں اپنی کتاب’’ڈیڈری کوننگ‘‘ میں کہا ہے کہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں مارے جانے والے بنگالیوں کے حوالے سے افواہیں پھیلائی گئی ہیں

سابق بھارتی لیفٹیننٹ جے ایف آر جیکب نے اپنی کتاب ’’سرنڈر ایٹ ڈھاکہ،برتھ آف اے نیشن‘‘ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں 1421 بھارتی فوجی ہلاک، 4058 زخمی اور 56 غائب ہوئے اور4 ہزار پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 26 ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی بھارتی قید میں نہیں تھے۔

بھارت ایک بار پھر بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی طرح سازش کر رہا ہے، ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھی آئے روز حملے کرتا ہے۔

لیکن بنگلہ دیش اب بھی چھوٹا بچہ بنا ہوا ہے، کوئی بھی بات سمجھنے سے قاصر ہے، بھارت کی ہاں میں ہاں ملارہاہے،

اب بات کرتے ہیں افغانستان کی،

تقسیم برصغیر سے قبل افغانستان کا بھارت سے 36 کا آکڑا چل رہا تھا، افغانستان ایک خاص علاقے پر قبضہ چاہتا تھا، اور اس وقت کے افغان سربراہ امیر عبدالرحمان خان اور برطانوی سفارتکار سر ہنری ڈیورنڈ نے مل کر اقتدار اور حدود کی جنگ میں 1893 میں سرحد بنادی جو "ڈیورنڈ لائن” کے نام سے مشہور ہوئی، برطانوی راج میں افغانستان اور بھارت کو مزید قریب کرنے کے لئے ریلوے نیٹ ورک بچھانا شروع کیا، لیکن قبائلیوں کے دخل اندازی کی وجہ سے وہ کبھی بن نہ سکی اور قربت بھی پیدا نہ ہوئی، نتیجتا ڈیورنڈ لائن پر آئے روز کشیدگی رہنے لگی، سن 47 میں خیال کیا جارہاتھا کہ عالمی تسلیم شدہ تقسیم برصغیر کے بعد افغانستان اور پاکستان کے معاملات اچھے ہوجائیں گے ، لیکن افغانستان نے نہ ڈیورنڈ لائن کو قبول کیا نہ پاکستان کو ،،، بلکہ پاکستان میں ہی دراندازی شروع کردی،پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے الزامات لگاتا رہا

افغانستان میں دس سالہ جنگ میں پاکستان نے ساتھ دیتے ہوئے افغان شہریوں کوسرچھپانے کو چھت اور زندگی بسر کرنے کو کھانا دیا، لیکن ہمسایہ ملک یہ احسان بھی بھول گیا،
اور پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے بھارت سے ہاتھ ملایا،

کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے۔۔

جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کے حوالے سے بھوٹان اور پاکستان نے 2004 میں تعلقات فعال کیے، دونوں کے مشترکہ ہمسائے چین اور بھارت ہیں، بھوٹان کی ثقافت اور سرحد زیادہ تر بھوٹان سے ملتی ہے، اس لیے بھوٹان کا جھکاو بھی بھارت کی طرف ہے، سقوط ڈھاکا کے بعد سب سے پہلے بنگلہ دیش کو الگ ملک تسلیم کرنے والوں میں بھارت بھی شامل تھا۔

یاد رہے عالمی فورم” جنرل اسمبلی ” سے بھی بھارتی وزیراعظم غیر حاضر رہے اور پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی سشما سوراج کے کاندھے پر، اور اب سارک کانفرنس سے بھی نظر چُرا گئے،

تاریخی دھاروں میں کس سے کیسے کب کیا تعلقات رہے۔۔۔ اس پر تو بات ہوگئی

آج ایک خبر نے صحافیوں کے نیوٹرل ہونے پر سوال کھڑا کردیا،

برطانوی اخبار گارڈین کی یہ رپورٹ مکمل طور پر بھارت کی حامی لگی،
https://www.theguardian.com/world/2016/sep/28/pakistan-humiliated-by-south-asian-countries-boycott-of-summit

بالکل ایسے معلوم ہورہا تھا جیسے برطانیہ نے سارک کا بائیکاٹ کیا، اور پاکستان کی تذلیل کی ،

صحافت کے اخلاقیات کے مطابق کسی ملک کا پرچم جلتے نہیں دکھانا، لیکن گارڈین کی خبر اور تصویر نے جزبات کو شدید ٹھیس پہنچائی،
ہر سال پاکستان پر ستمبر بھاری گزرتا ہے، دہشت گرد حملوں کی زد میں سیکڑوں جانیں جاتی ہیں، لیکن اس پر عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو خراب کیا جارہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے