عمران خان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں ؟

سیاسی پس منظر میں یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے بعض محترم تجزیہ کار اس پر قلم اٹھا چکے ہیں ، ان میں سے بعض یہ حتمی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ عمران خان اپنا مقدمہ ہار گیا ہے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ رائے درست نہیں۔یہ رائے اگرتعصب اوربد نیتی پر مبنی نہیں اور میرا حسن گمان ہے کہ ایسا نہیں، تو پھر عمران خان کے مقدمہ ہار دینے والی بات کو عاجلانہ اور سادہ لوحی پر محمول ضرور کرنا چاہیے ۔

اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ عمران خان کا موازنہ اپنے سیاسی حریفوں سے کرنا ہوگا ، سب کے لئے ایک جیسے پیمانے بنانے پڑیں گے۔ یہ نہیں کہ ایک کو ہاتھی گیٹ سے گزارا جائے اور دوسرے کے لئے اتنی چھوٹی کھڑکی کہ وہ رینگ کر بھی نہ گزر پائے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ سیاسی تجزیہ تو زمینی حقائق ، عملیت پسندانہ سوچ کو سامنے رکھ کر کریں ، میدان سیاست میں موجود بڑے پہلوانوں کو رعایت بلکہ بے پناہ رعایتیں دیں، ان کے بلنڈرز سے آنکھیں بند کر لیں اور عمران خان کو آئیڈیل ازم کی کسوٹی پر پرکھیں۔ رومانوی سیاست کے وہ تمام پیمانے جن کا اطلاق پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی سیاست میں بھی ممکن نہیں، وہ تمام عمران خان پر آزما ڈالے ۔ اسے انصاف نہیں کہتے ، عدل اور توازن پر مبنی رائے یوں نہیں دی جاتی۔

عمران خان کا مقدمہ آخر ہے کیا ؟ تین بنیادی نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستانی سیاست سٹیٹس کو کے گرد گھوم رہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں، نظام کو وہ بدلنا نہیں چاہتیں، تھانے ، کچہری، پٹوار کے اسی ظالمانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، تعلیم، صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانا ان کا مقصد نہیں ، طاقتور طبقات سے وہ ٹیکس وصول نہیں کرنا چاہتے، غریبو ں کی زندگی بدلنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، شریف خاندان، زرداری خاندان اور ان جیسے دیگر بڑے سیاستدانوں نے ملک سے لوٹی دولت بیرون ملک لے جا کر وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اسے واپس لانا چاہیے اور اگر میں یعنی عمران خان خود بھی کرپٹ ہے یا اس کے ساتھ کرپٹ ہیں تو ان کا بھی بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔تحریک انصاف کے سربراہ کے مقدمہ کا تیسرا نکتہ یہی ہے کہ گورننس بہتر کی جائے، سٹرکوں اور ظاہری چمک دمک دمک والے میگا پراجیکٹس کے بجائے حقیقی اصلاحات لائی جائیں، پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی دباﺅ سے آزاد رکھا جائے، بلدیاتی ادارے مضبوط کئے جائیںتاکہ گراس روٹ لیول تک جمہوریت کے اثرات مرتب ہوں۔

اب اس مقدمہ میں سے کون سی بات ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ ایک بھی نکتہ ایسا نہیںجس پر کسی تجزیہ کار کو اعتراض ہوگا، سب باتیں آئینے کی طرح واضح اور شفاف ہیں۔کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سٹیٹس کو کی علمبردار نہیں ہیں؟ کسی مزیددلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ پچھلے آٹھ برسوں سے دونوں پارٹیاں حکمران ہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلزپارٹی ۔ان دونوں صوبوں کو لے لیں، کسی ایک شعبے میں بھی اصلاحات کسی نے کیں۔ کیا پنجاب یا سندھ پولیس سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مخصوص مقاصد کے لئے اپنی مرضی کے ڈی پی او اور ڈی سی اوز لگائے جاتے ہیں؟ کیا یہ غلط ہے کہ لاہور میں تھانوں کے ایس ایچ اوز کے تقرر بھی مخصوص لوگ کرتے ہیں۔پچھلے آٹھ برسوں کے دوران تعلیم اور صحت میں کیا ریفارمز لائی گئیں ؟ٹیکس ریکوری بڑھانے کے لئے کیا کیا گیا؟ تین برسوں میںٹیکس اصلاحات کے نام پر کچھ نہیں ہوا ،ہر ایک جانتا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں سینہ گزٹ کو چھوڑیں ، آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں اور نیب کے سکینڈلز ہی کو سامنے رکھ لیں تو حیران ہوجاتا ہے۔برادرم رﺅف کلاسرا کے پچھلے تین چار برسوں کے کالموں میں اتنے بڑے سکینڈل اور کرپشن دھماکے سامنے آئے ہیں،کسی کو تردید کرنے کی بھی جرا¿ت نہیں ہوئی۔ ایسے کالم ہی اکٹھے کر دئیے جائیں تو کرپشن پر اچھی خاصی ضخیم کتاب بن جائے گی۔

پانامہ لیکس ہی کو دیکھ لیں۔ جس ہوشیاری اور ہنرمندی سے حکمران جماعت نے اپنی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر جو ڈرامہ رچایا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاناما سکینڈل آنے کے اگلے روز ہی وزیراعظم ٹی وی پر آئے اور قوم سے خطاب میں اس کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا۔ کہاں گیا وہ وعدہ ؟سب جانتے ہیں کہ کیسی چالاکی سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ٹی اوآرز کے سلسلے کو اتنا طویل کیا گیا کہ لوگ یہ بات سن سن کر تنگ آ جائیں اور معاملہ معلق ہوجائے۔ عمران خان کے تیس ستمبر والے جلسے، مارچ وغیرہ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کے سوا اور کیا راستہ چھوڑا ہے۔ کتنے مہینے گزر گئے، ٹی او آرز کی کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوگئے، مگر اتفاق رائے نہیں ہوا اور صحافتی حلقے یہ بات پہلے سے جانتے تھے ، بلکہ سیاسی فہم رکھنے والے ہر شخص کو علم تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ن لیگ کے ارکان اسمبلی سرگوشیوں میں، معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ نجی محافل میں کہتے تھے کہ جب اتفاق رائے ہوجائے، تب ہمیں بتائیے گا۔ وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ آج اگر کوئی صاحب دانش یہ مشورہ دے کہ عمران خان اپنے مقدمہ کو عدالتوں میں لے جائیں تو ان کی سادگی اور بھولپن پر رحم آتا ہے۔ بھائی کیا پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس قدر آزاد ہیں کہ حکومتوں کے خلاف عدالتوں کو ثبوت فراہم کریں گے؟ پھر پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے، اس کے لئے مگر قانون تو پاس کرو، تب ہی اس کمیشن کو اختیار ملے گا۔اتنی سامنے کی بات آخر ناقدین کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟کیاآرڈی ننس عمران خان نے جاری کرنا ہے؟ وہ تو کہتا ہے کہ اس پر خود الزام ثابت ہو جائیں، اس کے قریبی ساتھیوں پر ثابت ہوں تو انہیں بھی سزا دو۔ اس سے بڑھ کر کیا بات کی جا سکتی ہے؟

عمران خان کا اخلاقی مقدمہ اس کے سیاسی مقدمہ سے جڑا ہوا ہے۔ جن تین نکات کے گرد اس کا مقدمہ گھومتا ہے، انہی کو عمران خان اور اس کی سیاست پر منطبق کرنا چاہیے۔ عمران خان پر کرپشن ثابت ہونا تو دور کی بات ہے، الزام تک نہیں لگ پایا۔ اس کے بدترین مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عمران خان نے فلاں معاملے میں کمیشن کھایا یا وہ گھپلوں میں ملوث ہے، پیسے لے کر ٹکٹیں جاری کرتا ہے۔ اکتوبر تیرہ کے انتخابات سے پہلے ن لیگ کے تیز دھار رہنما ایک بات تواتر سے دہراتے تھے کہ عمران خان کرپٹ اس لئے نہیں کہ اسے اقتدار نہیں ملا، جب ملے گا تب دیکھیں گے۔ تین سال ہوچکے، خیبر پی کے پر اس کی جماعت حکمران ہے، کئی سو ارب کا سالانہ بجٹ ہوتاہے، ایک معاملے میں بھی عمران خان پر الزام نہیں لگ سکا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس نے پیسے لے کر ٹرانسفر ، پوسٹنگ کی ہیںیا وزارتیں دی ہیں۔ واضح رہے کہ پنجاب اور سندھ میں ایسے درجنوں بلکہ بیسیوں الزام اور ہوش ربا واقعات موجود ہیں۔

خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں، بہت کچھ ہوسکتا تھاجو نہیں ہوا، یہ مگر ہر ایک کو ماننا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ اصلاحات انہوں نے کی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے