رائے ونڈ میں جلسے کا شوق بھی عمران خان نے پورا کر لیا. اپنی 75 منٹ کی طویل تقریر میں گزشتہ کئی برسوں کی مایوسی اور ڈیپریشن اتارنے کے بعد اپنے کارکنوں کو ایک نئی تاریخ دی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا اور خود خراماں خراماں اپنے گھر کو چل دئیے. اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی وہ بڑا اعلان تھا جس کی خاطر پورے پاکستان سے کارکنوں کو لاہور اکٹھا کیا گیا حالانکہ یہ دھمکی باآسانی ٹی وی سکرینوں کے زریعے بھی دی جا سکتی تھی لیکن کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا. بہرحال پچھتر منٹ کے اعصاب شکن خطاب میں عمران خان ہو بہو الطاف حسین کی کاپی دکھائی دیے اور جب کسی بھی نیوز چینل نے ان کی تقریر کاٹنے کی اس وقت بھی جرات نہ کی جب نیوز بلیٹن کا وقت تھا تو صاف واضح ہو گیا کہ پنجابی الطاف حسین کو "فرشتوں” نے اسی طرز پر میدان میں اتارا ہے جیسے کراچی میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کیلئے الطاف حسین کو اتارا گیا تھا. یہ اور بات کہ بعد میں الطاف حسین خود اپنے بنانے والوں کے لیئے ہی وبال جاں بن گئے. رائے ونڈ کے اس جلسے میں پرویز خٹک، شیخ رشید اور عمران خان نے جو بازاری زبان ملکی اداروں اور شخصیات کے بارے استعمال کی، اس کو سن کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ "ہیلوسینیشن” کس حد تک خطرناک ثابت ہوتی ہےاور اس کے کیا مضمر اثرات انسانی دماغ پر مرتب ہو سکتے ہیں. ایک قومی سطح کی جماعت یا لیڈر کا دعوی کرنے والے شخص نے ایف آئی اے نیب الیکشن کمیشن اور ایف بی آر چئیرمین پی ٹی وی کو جن القابات سے نوازا وہ نہ صرف اس جماعت اور لیڈر کی سطحی سوچ اور کم ظرفی کا منہ بولتا ثبوت تھی بلکہ اس بات کا اعلان بھی کہ "کوکین” کو کیوں دنیا کے چند بدترین نشوں میں شمار کیا جاتا ہے. گو "کوکین” کا نشہ کرنا کسی کا ذاتی فعل ہے اور شاید اس پر بات کرنا ہرچند مناسب بھی نہیں لیکن اگر کوئ "کوکین” کے نشے کے بعد اپنے حواس پر قابو کھو بیٹھے اور آئے روز ایک ہی بات کو دہراتا رہے، اداروں اور شخصیات کو گالم گلوچ دینے اور ڈرانے دھمکانے پر اتر آئے تو پھر ضروری ہے کہ اس کو میڈیا پر اتنی کوریج دینے کے بجائے اس کے "علاج” کا بندوبست کیا جائے غالبا وبن عزیز میں کئی ادارے ایسے مہلک نشے کے شکار افراد کا علاج کرتے ہیں .
اسلام آباد بند کرنے کی تاریخ کا حتمی اعلان محرم کے بعد کیا جائے گا اور امید غالب ہے کہ اس کے بعد بھی تاریخ پر تاریخ اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا. یوں اگلا الیکشن سر پر آن پہنچے گا اور محترم عمران خان اپنی دانست میں یا ہیلوسینیشن میں اس بات پر کامل ایمان لا چکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات تک وہ نواز شریف کو میڈیا اور جلسوں جلوسوں کے ذریعے زرداری کی طرح عوام کی نگاہ میں مسٹر ٹین پرسنٹ یا سینٹ پرسنٹ بنا چکے ہوں گے اور اس لیے اگلا انتخاب ان کے نام رہے گا اور وزارت عظمی کی شیروانی پہننے کا خواب بالآخر پورا پو جائے گا. یقینا ایسا نامعقول آئیڈیا لال حویلی کا "بقراط” ہی محترم عمران خان کو دے سکتا ہے. اور اپنے پیروں پر بار بار کلہاڑی خود ہی مارنے کا یہ فعل بھی محترم عمران خان کے سوا کوئی اور سرانجام نہیں دے سکتا.لیکن اب کم سے کم یہ طے ہونا چائیے کہ ٹی وی چینلز پر براہ راست تقاریر میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں ناظرین تک پہنچانے کا عمل بند ہونا چائیے. کس قدر آسانی سے پیسے اور دھونس کے دم پر ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم پر قبضہ کر کے کسی بھی شخص کی پگڑی اچھالی جاتی ہے اور اداروں کی مٹی جس طرح سے پلید کی جاتی ہے اس سے نقصان نواز شریف کا نہیں بلکہ قومی اداروں کا ہوتا ہے. نواز شریف کو برا بھلا کہنے کیلئے ضروری نہیں کہ وطن عزیز کے تمام اداروں کی کریڈیبیلیٹی کو مشکوک بنا دیا جائے. پانامہ لیکس کے حوالے سے ضرور تحقیقات ہونی چائیں لیکن تحقیقات تو 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی بارے بھی ہوئی تھیں . کیا اس کو عمران خان نے تسلیم کیا؟ یا پھر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک کا ہر ادارہ، ہر ٹی وی چینل ، ہر صحافی ان کی ہاں میں ہاں ملائے اور بس انھی کے گن گاتا رہے. ایک طرف خواب وزرات عظمی کے اور دوسری جانب زبان و بیاں بالکل اس سے مختلف. ایک طرف احادیث کے حوالے اور دوسری جانب گالم گلوچ. ایسے رویے کے ساتھ تو شاید 2018 میں جناب عمران خان NA56 سے اپنی قومی اسمبلی کی نشست بھی نہ بچا پائیں. اوپر سے جس طریقے سے انہوں نے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو گرے ہوئے انداز میں یہ کہا کہ میں نے احتجاج میں ساتھ دینے کا کہا تھا کوئی رشتہ تو نہیں مانگا تھا. اس کے بعد اب پانامہ لیکس کے ایشو پر خان صاحب کو بھول جانا چائیے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان کا ساتھ دے گی.
2018 کے الیکشنز میں پاشا صاحب بھی موجود نہیں ہوں گے جو مضبوط امیدوار ان کی جماعت میں شامل کرائیں یا دھکے سے پچیس تیس سیٹیں ہی نکلوا کر دے دیں.دوسری جانب 2018 کی انتخابی مہم کیلئے اپنے خلاف مواد وہ خود نون لیگ کے حوالے اپنی ان اخلاقیات سے گرے ہوئے بھاشنوں کے ذریعے فراہم کرتے ہی چلے جا رہے ہیں. جب اگلے عام انتخابات کی مہم کے دنوں میں خان صاحب کی ریکارڈڈ تقاریر بطور اشتہار مخالفین چلوایا کریں گے تو اس وقت عمران خان صاحب کو اپنی سیاسی خودکشی کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا. سیاسی محاذ آرائی کو ایک دوسرے تک رکھا جائے تو درست رہتا ہے لیکن ملکی اداروں اور ان کے سربراہان پر بنا ثبوت الزامات کی بوچھاڑ سے گریز لازم ہے. احتساب سے کوئی بالاتر نہیں چاہے وہ نواز شریف ہو یا عمران خان. اور آف شور کمپنیوں سے لیکر شوکت خانم کے چندوں اور صدقات میں خوردبرد جیسے الزامات کا بھی خان صاحب کو کسی کورٹ میں سامنا کرنا چائیے. باقی کہنا صرف یہ ہے کہ قومی جماعتوں کے رہنماوں کو کم سے کم جلسے یا کسی تقریر کے روز ایسی کسی بھی چیز سے دور رہنا چائیے جو ہیلوسینیشن کا باعث بنے اور ایسی ایسی باتیں
اور دعوے کروا ڈالے جن کو اگلے دن سننے کے بعد خود کو بھی ندامت محسوس ہو.