28 ستمبر بدھ کا دن لاہور میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف گزرا، اس سفر میں عزیزم حافظ محمد خزیمہ خان سواتی ہمراہ تھا، جو میرا چھوٹا نواسہ ہے اور فیس بک پر میرے نام کا پیج چلا رہا ہے، جس پر شائقین کے لیے میری ویڈیوز اور تحریریں شائع کرتا رہتا ہے۔ منصورہ میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس تھا، جس میں شرکت کے لیے بطور خاص سردار محمد خان لغاری صاحب اور پیر محمد محفوظ مشہدی صاحب نے مجھے فرمایا تھا۔
ملی یکجہتی کونسل کا قیام اب سے دو عشرے قبل عمل میں لایا گیا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا سمیع الحق، قاضی حسین احمدؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور دیگر زعماء اس میں سرگرم عمل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں سپاہ صحابہؓ اور تحریک جعفریہ آمنے سامنے تھیں، سنی شیعہ کشیدگی قتل و غارت کے عروج کے دور سے گزر رہی تھی اور دونوں طرف کی بہت سی قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، تاکہ اس کشیدگی کو کنٹرول کیا جائے اور فرقہ وارانہ تصادم کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے، چنانچہ دونوں طرف کے ذمہ دار حضرات کو اس میں شریک کیا گیا اور ایک میز پر بٹھا کر سترہ نکاتی ’’متفقہ ضابطہ اخلاق‘‘ دونوں کی منظوری سے طے کیا گیا۔ ایک طرف سے علامہ ساجد علی نقوی اور دوسری طرف سے مولانا محمدضیاء القاسمیؒ قیادت کر رہے تھے، جن کے ساتھ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہیدؒ اور مولانا محمد احمد لدھیانوی بھی اس کارِ خیر میں شریک تھے۔
علامہ ساجد علی نقوی اور مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ نے جس حوصلہ، تدبر اور جذبۂ حب الوطنی کے ساتھ اس کشیدگی کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کیا، اس کے باعث مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا سمیع الحق اور قاضی حسین احمدؒ کی قیادت میں ملی یکجہتی کونسل فرقہ وارانہ تصادم کے اس طوفان کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب ہوگئی، جسے پاکستان کی تاریخ میں کونسل کے ایک شاندار کارنامے کے طور پر ہمیشہ ذکر کیا جائے گا۔ میں بھی اس دور میں ملی یکجہتی کونسل کے ساتھ شریک کار تھا۔ کونسل نے اس موقع پر ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون کے لیے عوامی رائے کو منظم کرنے کا کردار بھی مؤثر طور پر ادا کیا، جس کے نتیجے میں تاریخ ساز ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ناموس رسالت کے قانون کو خدانخواستہ تبدیل کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا حکومت پاکستان کامیابی کے ساتھ سامنا کر سکی۔ میں اس ملک گیر ہڑتال کے کارکنوں میں شامل تھا اور اسے اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا دوسرا دور محترم قاضی حسین احمدؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں متحرک کیا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی بذات خود اس میں شریک کار بننے کی دعوت دی تھی لیکن میرا ذوق اب عملی تحریکات سے الگ رہتے ہوئے فکری اور علمی تگ و دو کے دائرے میں محدود ہو کر رہ گیا ہے، اس لیے اس میں متحرک نہ ہوسکا، البتہ 28 ستمبر کے اجلاس میں مذکورہ بالا دوستوں کے ارشاد پر حاضر ہوگیا، جو ملی یکجہتی کونسل کے دوسرے دور کے کسی اجلاس میں میری پہلی حاضری تھی۔ قومی وحدت، ملکی سا لمیت اور ملی اتحاد کے لیے جن جذبات کا اجلاس میں اظہار کیا گیا وہ قابل قدر تھے اور اجلاس میں مولانا صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر الوری، جناب سراج الحق، حافظ عبد الرحمان مکی، جناب لیاقت بلوچ، حافظ عاکف سعید، علامہ ساجد نقوی، علامہ نیاز حسین نقوی، مولانا محمد امجد خان، مولانا عبد الوہاب روپڑی، مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا اللہ وسایا، پیر محفوظ احمد مشہدی اور مختلف دینی جماعتوں کے دیگر زعماء کی موجودگی مذہبی مکاتب فکر کے حوالہ سے فی الواقع ملی یکجہتی کا منظر پیش کر رہی تھی، البتہ کونسل کے پہلے دور کو یاد کرتے ہوئے یہ بات ضرور محسوس ہورہی تھی کہ علامہ ساجد علی نقوی تو اپنی بھرپور ٹیم کے ساتھ اجلاس میں شریک ہیں لیکن مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی سیٹ خالی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ دو عشرے قبل کونسل کی یہ محفل انہی دونوں کو یکجا بٹھانے کے لیے سجائی گئی تھی مگر اب مولانامحمد ضیاء القاسمیؒ کے کیمپ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ میرے خیال میں ملی یکجہتی کونسل اگر اس عدم توازن کو محسوس کرتے ہوئے اس کی تلافی کی کوئی صورت نکال لے تو پہلے دور کی طرح اب بھی وہ ملک و قوم کے بہت سے معاملات میں مؤثر کردارا دا کر سکتی ہے۔