پاکستان کے آزاد کشمیراورگلگت بلتستان کے ساتھ تعلقات ،ایک جائزہ

جموں وکشمیر کی سابق شاہی ریاست کے پاکستان کے زیر انتظام دونوں خطوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لیے اختیارات ،حقوق اور عطائے اختیار رمزیہ الفاظ بن چکے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے ڈھانچے کو با اختیار بنانے کے لیے بنیادی طور پر سول سوسائٹی اور جزوی طور پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کی گئی حالیہ کوششیں اسلام آباد میں بیٹھے پالیسی سازوں کو ابھی تک قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

خصوصاً گلگت بلتستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی ہے، کیونکہ اس علاقے سے گزرنے والی پاک۔چین اقتصادی راہ داری کی نمو پذیری کے لیے یہ کلیدی عناصر میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ سے اس خطے میں بااختیار اور موثر مقامی حکومتی ڈھانچے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے.

گلگت بلتستان کو وفاق پاکستان میں صوبائی درجہ دیے جانے کے حوالے سے جاری بحث کی وجہ سے ضروری ہو جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان کی منظور کی گئی قراردادوں کے بارے میں تاریخی حقائق کی چھان بین کی جائے. اس کے نتیجے میں ایک ایسے قابل عمل عبوری حل کی تجویز کی ضرورت سامنے آتی ہے جو کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے گومگو کی کیفیت کو ختم کر سکے۔

مزید یہ کہ ایسا سابقہ ریاست جموں وکشمیر کی سالمیت اور ریاست کے تمام خطوں میں بسنے والے عوام (بشمول گلگت بلتستان) کے حق خودارادیت کو سفارتی محاذ پر نقصان پہنچائے بغیر کیا جائے۔

[pullquote]تاریخی تناظر (حیثیت اور جواز)
[/pullquote]

منقسم ریاست جموں کشمیر جو کہ بنیادی طور پر پاکستان اور بھارت کے کنٹرول میں ہے، اقوام متحدہ نے 15 اگست 1947 کی پوزیشن پر متنازعہ علاقہ تسلیم کی ہوئی ہے. آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ اور ریاست جموں کشمیر کا قانونی حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بنیادی اجزا میں شامل ہیں۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان معائدہ امرتسر 1846 کی روح سے ریاست جموں کشمیر کا حصہ بنے تھے تاہم مارٹن سوک فیلڈ استدال پیش کرتے ہیں کہ معائدہ امرتسر میں گلگت بلتستان کا ایک بڑا حصہ شامل نہیں ہے۔ معائدہ امرتسر میں لکھا ہے کہ "تمام پہاڑی علاقے معہ نواحات جو دریاۓ سندھ کے مشرق اور دریاۓ راوی کے مغرب میں واقع ہیں، بشمول چمبہ ماسوائے لاہول کے” جبکہ گلگت اور بلتستان کا بڑا حصہ دریاۓ سندھ کے مشرق میں نہیں بلکہ مغرب اور شمال میں واقع ہے۔

تاہم معائدہ امرتسر کی مختلف توضیحات کے باوجود قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ 15 اگست 1947 کو گلگت بلتستان پر ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور اس کا نامزد گورنر گھنسارا سنگھ گلگت میں تعینات تھا۔ اس طرح یہ علاقہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ بھی ہے اور مسئلہ کشمیر کا بھی.

سابق شاہی ریاست جموں وکشمیر کی سرحدیں بلکل واضح ہیں اور گزشتہ 68 سالوں میں ان پر کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا تاہم جموں و کشمیر کی ریاست کی حاکمیت غیر واضح اور غیر تسلیم شدہ رہی ہے. اگرچہ 15اگست 1947 کو برطانوی اقتدار اعلیٰ کے خاتمے کے بعد ریاست جموں کشمیر آزاد اور خود مختار ہو گئی تھی اور یہ خود مختار حیثیت 73 دن تک برقرار رہی تھی۔

ہری سنگھ کی حکومت کا اقتدار اعلیٰ جزوی طور پر اس وقت معطل ہو گیا تھا جب 4 اکتوبر 1947 کو موجودہ آزاد کشمیر کے خطے کے بہت سے لوگوں نے اس کے شخصی راج کے خلاف بغاوت کر کے ایک عوامی انقلابی آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے قیام کا اعلان کیا مگر یہ اعلان محض اعلان ہی رہا اور عملی جامہ نہ پہن سکا. نتیجے کے طور پر 24 اکتوبر 1947 کو اس کی تنظیم نو عارضی حکومت کے طور پر کی گئی۔ جس کا ابتدائی ڈھانچہ جنجال ہل کے مقام پر سدھنوتی ، پونچھ میں قائم کیا گیا۔ جموں وکشمیر پراجا سبھا کے ایک ممبر سردار محمد ابراہیم خان نے صدر کا کردار سنبھالا اور وزراء کی ایک جماعت نے اپنے کنٹرول میں موجود علاقے کی سول انتظامیہ کی ذمہ داری اٹھائی۔

گلگت بلتستان کی بات کریں تو وہاں کی جنگ آزادی کے بارے میں متنازع تاریخی روایات موجود ہیں جو اس کے چند دن بعد یکم نومبر 1947 کو شروع ہوئی تھی۔ بہرحال تاریخ بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے بغاوت کی، مہاراجہ کے تعینات کردہ گورنر گھنسارا سنگھ سے اقتدار چھینا اور ایک انتظامی کونسل کا قیام عمل میں لایا۔

اس طرح جمہوریہ گلگت قائم ہوئی جو صرف پندرہ دن تک برقرار رہ سکی۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت نے پاکستان اور ہندوستان کو ریاست کے داخلی معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کیا اور علی الترتیب قبائلیوں اور افواج کی مدد سے اکتوبر 1947 میں مداخلت کی گئی .نتیجے کے طور پر کشمیر کی خود مختاری کا خاتمہ ہو گیا اور یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ملکیت کا تنازعہ بن گیا .بعدازاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و بھارت کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جا سکے ۔

رائے شماری کے لیے فوجی انخلاء کی بنیادی شرط کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان و بھارت کبھی کسی معائدے پر نہ پہنچ سکے ۔دونوں پڑوسیوں کے درمیان دو طرفہ مذاکرات بھی آج تک کارآمد ثابت نہ ہو سکے ۔ جموں و کشمیر کا تنازعہ آج بھی جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بنا ہوا۔

کچھ تبصرہ نگاروں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی یا پھر اسے پاکستان کا صوبہ بنانے کے لیے حال ہی میں ایک بحث چھیڑی ہے جس کی بنیاد یہ دلیل ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے 1947 میں اپنی مرضی سے مبینہ طور پر پاکستان سے الحاق کر لیا تھا. یہ بات گمراہ کن ،مبالغہ آرائی اور تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے ، CPEC کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جوابی دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ گلگت بلتستان کی تاریخ کے بارے میں اک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھانے اور ممکنہ طور پر گلگت بلتستان کو CPEC کی سیدھ میں مزید تقسیم کرنے کی کوشش ہے.

حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں دو چھوٹی جاگیروں ہنزہ اور نگر کے حکمرانوں نے انفرادی طور پر ( مقامی انتظامی کونسل سے مشاورت یا منظوری کے بغیر) الحاق کی کوشش ( درخواست ) کی تھی تب الحاق کی ان درخواستوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے مسترد کرنا” مناسب” سمجھا گیا تھا کیونکہ جموں وکشمیر کی باقی ماندہ سابقہ شاہی ریاست سے الحاق کرنے کی کوششوں پر اس کے نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ۔

اب اگر پاکستان ،گلگت بلتستان میں موجود ان دو چھوٹی جاگیروں کے ” الحاق” کو اعلانیہ طور پر قبول کرتا ہے تو سوال یہ اٹھے گا کہ پھر وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے جموں وکشمیر کے بھارت سے کیے گئے مشروط الحاق کو کیوں سختی سے مسترد کرتا ہے.

اصل حقیقت یہی ہے کہ گلگت بلتستان آئینی انتظامی اور سیاسی طور پر 15 اگست 1947 کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا۔اس معاملے پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس کو متنازعہ علاقہ اور مسئلہ کشمیر کاحصہ قرار دیتی ہیں.

گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے عوام کی رائے میں متضاد رحجانات موجود ہیں.

کچھ اسٹیڈیز یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اس علاقہ کے عوام کی ایک بڑی اکثریت پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتی ہے چاہے اس کی صورت عارضی صوبائی درجہ ہو یا مستقبل صوبائی حیثیت ہو۔اس علاقے میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو گلگت بلتستان کی مکمل خودمختاری کے حامی ہیں اور کچھ لوگ آزاد کشمیر طرز کی حکومت کا خیال بھی پیش کرتے ہیں .تاہم عوامی خواہشات اقوام متحدہ کی قردادوں میں طے شدہ سانچے کے تحت ہی طے کی جا سکتی ہیں اور تنازعہ کشمیر کے حل سے مشروط ہیں۔
تاریخی حقائق اٹل ہوتے ہیں.

[pullquote]آئین پاکستان :
[/pullquote]

آئین پاکستان 1973 متنازع ریاست جموں وکشمیر سے تعلق کی وضاحت شق نمبر 257 میں کرتا ہے ۔ اس میں لکھا ہے ” جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیں گے ، پاکستان اور ریاست کے درمیان تعلق کو عوامی خواہشات کے مطابق استوار کیا جائے گا”

پاکستان کے آئین 1973 کی شق نمبر 1 ( 2) اپنے دائرہ اختیار میں موجود دوسرے آزاد علاقوں کا ذکر تو کرتی ہے مگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا زکر پاکستان میں شامل علاقوں میں نہیں کرتی .

جسٹس ریٹائر منظور گیلانی استدلال پیش کرتے ہیں کہ آئین کی شق 1 (2) (d) کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو "بصورت دیگر” شامل سمجھا جا سکتا ہے.

اس کے بر عکس ڈاکٹر نذیر گیلانی نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ ” قانونی طور پر یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کے آئین کی شق 1 (2) (d) کے تحت پاکستان میں ” بصورت دیگر” شامل علاقوں سے مراد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے کیونکہ شق 1 (2) (d) کا شق 257 میں کوئی حوالہ شامل نہیں ہے، اس لیے جسٹس (ر) منظور گیلانی پاکستان میں شامل "بصورت دیگر” علاقوں کی تفہیم میں گمراہ ہوئے ہیں اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غلط تفہیم پھیلا رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ شق 257 ریاست جموں و کشمیر کے آئندہ ممکنہ تعلق کی بات کرتی ہے جب کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا.

قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے سلامتی کونسل کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان کی قراردادوں سے ماخوذ اعتباری بنیادوں پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا انتظام عارضی طور پر سنبھالا ہوا ہے . یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے مسئلہ کشمیر کے حل تک اپنے حقیقی اختیار میں موجود علاقوں میں اچھی حکمرانی اور نظم و نسق کو یقینی بنائے.

[pullquote]معائدہ کراچی :
[/pullquote]

1949 میں حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان طے پائے جانے والے معائدہ کراچی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے کیونکہ آزاد کشمیر کی اس وقت قیادت کو کوئی اخلاقی یا قانونی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں دے دے نہ ہی حکومت پاکستان اس معائدے کی بنیاد پر گلگت بلتستان پر کوئی قانونی حق جتا سکتی ہے.

گلگت بلتستان کے عوام مہاراجہ کی آمرانہ حکومت کے خلاف اپنی "آزادی” کے لیے لڑے تھے اور انھوں نے کبھی اس معائدے کی توثیق نہیں کی.

یقینی طور پر معائدہ کراچی نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان پہلی شراکت اقتدار کی بنیاد رکھی تاہم اس کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی گورننس پر انتہائی منفی مضمرات مرتب ہوئے. یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ مطلق حاکمیت اور قانونی جواز عوام کے پاس ہی موجود ہوتا ہے. اس لیے گلگت بلتستان کے عوام کو ہر حوالے سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تابع اور مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایک نیا عبوری عمرانی معائدہ کریں.

حقیقت میں گلگت بلتستان کو تزویراتی محل وقوع اور چائنہ پاک اقتصادی راہدری میں پیش رفت کی وجہ سے حکومت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں امکانی برتری حاصل ہے اور اس حوالے سے باشندہ ریاست کے قانون کی بحالی گلگت بلتستان کے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنیادی نقطہ ثابت ہو سکتی ہے.

آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان عبوری ایکٹ 1974 اور پاکستان اور گلگت بلتستان کے درمیان گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء کی بنیاد پر جاری بندوبست کے ایک تحقیقی مطالعہ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ آئینی ضوابط نہ تو متنازعہ خطوں کو خوداختیاری دیتے ہیں اور نہ ہی صحیح معنوں میں UNCIP کے مجوزہ طریقہ کار پر عمل ہو رہا ہے.

بشریٰ آصف لکھتی ہیں کہ اسلام آباد کے مظفرآباد سے تعلق کی بنیاد کنٹرول پر ہے نہ کہ خوداختیاری پر اور اس کے آزاد کشمیر کی سیاسی اور اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں.

گلگت بلتستان -آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان خارجی سطح پر شراکت اقتدار کا معاملہ گومگو کی حالت کا شکار اور غیر واضح ہے، یہ نہ صرف جمہوری اقدار اور روایات کے لیے سوالیہ نشان ہے بلکہ مقامی لوگوں کے حق حکمرانی پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے. 1947 سے ہی کر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں پالیسی چت بھی میری پٹ بھی میری کی رہی ہے. وقت کی گھڑی کو پیچھے گھومایا جائے تو آزاد کشمیر کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں 1970 کا عبوری ایکٹ داخلی خودمختاری اور خود اختیاری کی ایک بہت اچھی مثال ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کو مکمل جمہوری اور با اختیار ڈھانچہ مہیا کیا گیا تھا.

یہ واحد ایکٹ تھا جو آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی مشاورت سے لایا گیا تھا اور ایسا ان کی سیاسی اور آئینی حقوق کے لیے چلائی جانے والی انتھک جدوجہد اور مہم کے بعد ہوا تھا. اس ایکٹ کی صورت میں آزاد کشمیر کو پہلی بار قابل زکر اندرونی خودمختاری حاصل ہوئی تھی، پہلی بار UNCIP کے طے شدہ طریقہ کار کی اصل روح کے مطابق آزاد کشمیر کو زیادہ اندرونی خودمختاری اور نسبتاً بہتر جمہوری ڈھانچہ ملا تھا. ستم ظریفی ملاحظہ کریں کے اس وقت پاکستان میں ایک فوجی آمر یحییٰ خان حکمران تھا.

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو حقیقی داخلی خودمختاری دینا وقت کی ضرورت ہے اور اس میں پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے. اس سلسلہ میں ایکٹ 1970 آج بھی بنیادی حوالہ ہے جو کہ پاکستان اور ان علاقوں کے درمیان شراکت اقتدار کے حوالے سے موجود تزبزب کو ایک وسیع البنیاد داخلی طور پر خودمختار حکومت کے ڈھانچے کی مدد سے ختم کر سکتا ہے.

[pullquote]داخلی خودمختاری کیوں اہم ہے ؟؟
[/pullquote]

معاصرانہ علمی مباحث ظاہر کرتے ہیں کہ بیرونی اثر اور کنٹرول میں موجود خطوں میں جمہوری اور خودمختار حکومتی ڈھانچوں کا قیام ہمیشہ سے ایک مشکل کام رہا ہے. مرکزی یا خارجی اور علاقائی یا مقامی حکومتوں کے درمیان موجود اختیارات کی تقسیم کی یک طرفہ وضع تنازعات اور گورننس کے بودے پن کا باعث ہوتی ہے اور جمہوری حکومت کے قیام کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ متنازعہ خطوں اور مرکزی حکومتوں کے درمیان غیرمتوازن تقسیم اختیار متشدد بغاوتوں کی راہ بھی ہموار کرتی ہے.

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے پاکستان کے ساتھ انتہائی ناہموار اور غیرمتوازن تقسیم اختیارات نے نہ صرف اداروں کو کمزور کیا ہے بلکہ حکومتی نظام بھی بودے پن کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ضروری حکومتی ڈھانچے قائم نہیں ہو سکے اور حکومتی اختیار بھی کمزور ہوا. اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ پاکستان کے ساتھ اختیارات کی غیر متوازن اور یک طرفہ تقسیم ہے.

فاضل معاصر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ متنازعہ علاقوں میں جمہوری حکومتی ڈھانچوں کے قیام کے لیے ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا ناگزیر ہے جو کہ حقیقی علاقائی خود مختاری کی ضمانت دیتا ہو.

سیاسی علوم کے ماہر لیپی دوتھ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ” خود حکمرانی یا خود اختیاری حکومت کا تصور داخلی خودمختاری سے قریبی مشابہت رکھتا ہے اور عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ داخلی خود اختیار حکومت کے تحت ایک علاقائی اکائی اپنے داخلی معاملات کسی خارجی مداخلت کے بغیر خود ہی سنبھالتی ہے”. وہ مزید صراحت کرتے ہیں کہ اٹانومی کا مطلب ہے ” کسی دوسری ریاست کی حکومت کی اندرونی حکومتی معاملات ( مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ) اور علاقائی انتظام و انصرام میں مداخلت یا کنٹرول سے آزادی ہے”.

معاصر دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب مرکزی اور علاقائی حکومتوں کے درمیان موجود تنازعات کو سلجھایا گیا ہے. جزیرہ آلانڈ نے فن لینڈ کے ایکٹ آف سیلف گورنمنٹ 1991 کے تحت دوررس خودمختاری حاصل کی . اسے اس جزیرے پر موجود ہر عوامی سیاسی شعبہ میں تمام انتظامی اور قانونی اختیارات حاصل ہیں. برطانیہ کے کیس میں اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ بلند درجے کی خود حکمرانی کی مثالیں ہیں. جزیرہ نارڈک ، جنوبی ٹائرول اور اسپین کی کاٹالونیا اور باسک کی خودمختار کمیونیٹیز خودمختاری کی موجود ترقی یافتہ ترین شکلوں میں شامل سمجھی جا سکتی ہیں.

[pullquote]بہترین عبوری حل… داخلی حق خودارادیت کو تسلیم کرنا :
[/pullquote]

اقوام متحدہ نے حق خودارادیت کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے. پروفیسر سلوترے سینس نے خودارادیت کے تصور کی بہت بامعنی تشریح کی ہے، انھوں نے اس تصور کو داخلی اور خارجی خودارادیت میں تقسیم کیا ہے. ” خارجی خودارادیت کا تعلق عوام کے بین الاقوامی رتبے سے ہے.اس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ یہ عوام کے اس حق کا تسلیم کیا جانا ہے کہ وہ ایک قومی ریاست بناتے ہیں، کسی موجودہ ریاست میں مدغم ہو جاتے ہیں یا کسی فیڈریشن کی اکائی بنتے ہیں”. جب کہ اندرونی خودمختاری کی وضاحت وہ ایسے کرتے ہیں ” ریاست کے قیام (یا ریاست جیسی حالت ) کے بعد عوام کا حق خودارادیت” داخلی حق خودارادیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ کوئی دوسری ریاست کسی بھی طرح کے دباو یا اپیل کے زریعے عوام کو اپنی مرضی کا سیاسی ، معاشی اور سیاسی نظام اختیار کرنے سے روکنے کی کوشش نہ کرے.

منقسم اور متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام حد متارکہ کے دونوں اطراف اپنے خارجی حق خودارادیت کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے زریعے استعمال کرنے کے منتظر ہیں جس کا اقوام متحدہ نے وعدہ کیا تھا اور بھارت اور پاکستان نے اس سے اتفاق کیا تھا. تاہم جو علاقے ان دونوں ممالک کے زیر انتظام ہیں ان کو داخلی حق خودارادیت کا حق بھی استعمال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ہے. جموں و کشمیر کا اسٹیٹس متنازعہ ہونے کے باوجود عمومی تفہیم یہی ہے کہ ان علاقوں میں بسنے والے ریاستی باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق متنازعہ نہیں ہیں.

ان حقوق میں زندہ رہنے، آزادی، جان و مال کا تحفظ، 20 اپریل 1927 کے باشندہ ریاست قانون کے تحت ریاستی شہریت کا حق، عدم مرکزیت پر مبنی جمہوری حکومت کا حق، حق رائے دہی، آزادی اظہار کا حق ، تنظیم سازی کا حق اور قدرتی وسائل پر مالکانہ حقوق شامل ہیں. ان حقوق کو مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر یرغمال نہیں بنایا جا سکتا. گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست کے قانون پر عمل بھی نہیں کیا جا رہا ہے.

چینی سرمایہ کاری اور CPEC کے منصوبے کو تحفظ دینے کے لیے آئین پاکستان میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز غلط سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے .میری رائے میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آیا کہ آئین پاکستان میں ترمیم کر کے گلگت بلستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے گا ، جو کہ بتایا جاتا ہے کہ مزید حقوق دینے کے پردے میں میں کیا جا رہا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ آیا کہ موجودہ شراکت اقتدار کا طریقہ کار جو آزاد کشمیر- گلگلت بلتستان اور پاکستان کے درمیان چل رہا ہے اس قابل ہے بھی کہ نہیں کہ وہ اس خطے میں ایک با اختیار اور جمہوری طرز حکومت کو فروغ دے سکے.

گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کے نتیجے میں جغرافیائی طور پر یہ علاقہ پاکستان میں مدغم ہو جائے گا. ایسا کوئی بھی عمل پاکستان کے لیے ایک سفارتی دلدل ثابت ہو گا اور یہ CPEC کی بقاء کے لیے بھی شدید خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ حکومت پاکستان حکومت پاکستان UNCIP کی وقتاً فوقتاً منظور ہونے والی قراردادوں کے تحت گلگت بلتستان کا اسٹیٹس تبدیل نہیں کر سکتی.

کچھ حلقوں کی طرف سے ایک اور تجویز سامنے آئی ہے کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے دیا جائے. دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تجویز کے حامی ایک ایسے نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں جو پہلے کی آزاد کشمیر کے عوام کو ان کے حقوق مہیا کرنے میں واضح طور پر ناکام ہو چکا ہے. جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کو عبوری ایکٹ 1974 کے تحت خود حکمرانی اور داخلی خود مختاری حاصل ہے اور آزاد کشمیر جیسا نظام گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.

اس پس منظر میں تبدیلی کی ضرورت کن چیزوں میں ہے اسے دو سطحوں پر بیان کیا جا سکتا ہے. اول ؛ ڈنڈے اور گاجر کی پالیسی اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں سوچ کا انداز، دوم ؛ ان دونوں علاقوں اور حکومت پاکستان کے درمیان اختیارات کی غیر متوازن تقسیم کا نظام.

پس آزاد کشمیر-گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے فریم ورک کا تعین ان خطوں کے حقیقی نمائیندوں کے ساتھ مشاورت سے طے ہونا چاہیئے.

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلیوں کو حقیقی علاقائی خودمختاری دے کر با اختیار بنایا جانا چاہیئے جن کو مالی اور قانون سازی کے مکمل اختیارات حاصل ہوں. حکومت پاکستان کو صرف دفاع اور کرنسی کے شعبے اپنے پاس رکھنے چاہیئں اور UNCIP کی ذمہ داریاں متعلقہ قانون ساز اسمبلیوں کے اتفاق رائے سے سر انجام دینی چاہیئں. اور اس کے علاوہ باقی تمام اختیارات جو موجودہ وقت میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل کے پاس ہیں وہ متعلقہ قانون ساز اسمبلیوں کو واپس لوٹا دینے چاہیئں.

یہ ضروری لگ رہا ہے کہ آزاد کشمیر- گلگت بلتستان کو با اختیار بنانے کے کسی بھی متبادل کلیے میں مندرجہ زیل چھ نکات لازمی طور پر شامل ہوں.

(ا) UNCIP کے طے شدہ طریقہ کار کی روح کے مطابق ہو .

(ب) متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے تناظر اور عبوری آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم شدہ 24 اکتوبر 1947 کے اعلامیے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو.

(ج) عوام کی آزادانہ مرضی کے مطابق ہو اور آزاد کشمیر – گلگت بلتستان کے عوام کے ریاستی شہری کی حثیت سے حاصل حقوق کی ضمانت دے.

(د) قابل عمل، ممکن اور موقر ہو، جمہوریت سے لیس ہو تا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر – گلگت بلتستان کے درمیان شراکت اقتدار کے موجودہ غیر متوازن ڈھانچے کو تبدیل کر سکے.

(ر) آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مکمل داخلی خودمختاری یا مقامی اقتدارِ اعلیٰ دینے کے قابل ہو.

(ص) آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ 1970 کے ساتھ مماثلت رکھتا ہو جس نے آزاد کشمیر کو قابل زکر داخلی خودمختاری دی تھی.
مزید یہ کہ آئین پاکستان کی اٹھارویں ترمیم جس سے پاکستان کے صوبوں کو صوبائی خودمختاری اور وسیع اختیارات ملے اس کا بھی آزاد کشمیر – گلگت بلتستان کی خصوصی علاقائی حثیت کو خطرے میں ڈالے بغیر اطلاق کیا جا سکتا ہے.

[pullquote]اسباق جو سیکھے جانے چاہیئں۔
[/pullquote]

تنازعات کی تاریخ بتاتی ہے کہ حقوق اور اختیارات کبھی بھی دیے نہیں جاتے بلکہ لیے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو سمجھنا ہو گا کہ جائز جمہوری حقوق کا محض مطالبہ کافی نہیں ہے۔ انھیں اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ جموں و کشمیر کی سابقہ شاہی ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت سے اقتدار اعلی ( حاکمیت اعلی) کا منبع ان ہی کی ذات ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنے جائز حقوق کے لیے جمہوری جدوجہد کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا.

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت کو سمجھنا ہو گا کہ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کے بجائے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان اور حکومت پاکستان کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دینا بہت آسان مگر بے سود کام ہے. اسی طرح گلگت بلتستان کی قیادت کو احساس کرنا ہو گا کہ گلگت بلتستان میں غیر موثر اور بےاختیار حکومت کا الزام آزاد کشمیر کی قیادت پر ڈالنا، مسئلہ کشمیر کے سیاسی، تاریخی اور قانونی حقائق سے فرار کے مترادف ہے. آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں کو بےاختیار اسمبلیوں اور حکومتی بودے پن کے ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے. یہ یاد رکھنا چاہیے کہ الزام تراشیاں آزاد کشمیر – گلگت بلتستان اور پاکستان کے درمیان تعمیری تعلقات میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ محاذ آرائی کی طرف لے جائیں گی اور صورتحال کو مزید خراب کرنے کا باعث ہوں گی۔

حکومت پاکستان کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں رائج الوقت آئینی ڈھانچہ عوام کے جائز حقوق اور ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے. مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اٹھائے جانےوالے نیم دلانہ اقدامات اور غیر یقینی کی کیفیت صورتحال میں مزید بگاڑ کا باعث بن رہی ہے. اس لیے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے جائز قانونی اور جمہوری حقوق کو نظر انداز کرتے رہنے فائدے کے بجائے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گا.

خلاصہ یہ ہے کہ جب تک کشمیری عوام کو خارجی حق خودارادیت نہیں مل جاتا ان کا داخلی حق خودارادیت تسلیم کیا جانا چاہیئے. بھارتی زیرانتظام کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی وکالت سے پہلے پاکستان کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا داخلی حق خودارادیت تسلیم کرنا ہو گا اور ایک جمہوری اور بااختیارحکومت کی راہ ہموار کرنا ہو گی۔ داخلی خودارادیت سے عوام آزادانہ طور پر فیصلہ کر سکیں گے کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک وہ ریاست پاکستان کے ساتھ کس قسم کی تقسیم اختیارات چاہتے ہیں۔

پالو فریرے نے کہا تھا ” غیر انسانی سلوک کا شکار لوگ جلد یا بدیر ان لوگوں کے خلاف ضرور اٹھتے ہیں جنھوں نے انھے اس حال میں پہنچایا ہوتا ہے

(مترجم : اسد خان)

نوٹ: ڈاکٹر جاوید حیات نے پی۔ایچ۔ڈی پولیٹیکل سائنس میں کررکھی ہے۔محقق اور تجزیہ نگار ہیں جو ملکی اور عالمی رسائل و جرائد میںہ لکھتے رہتے ہیں.ان کو دنیا کے متنازع خطوں میں اچھی طرز حکمرانی کے فروغ کے حوالے سے ایک مستندحوالہ سمجھا جاتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے