عالمی مسلح جہادی تنظیموں داعش ،حزب التحریر ،بوکوحرام وغیرہ اور طالبان میں بنیادی فرق
فقہ اسلامی اور اس کے متعلقہ علوم مثلاً تفسیر، اُصول تفسیر، حدیث، جرح و تعدیل ، اصول فقہ، اشباہ و نظائر، قواعد کلیہ، فروق وغیرہ میں جو کام گزشتہ تیرہ سو برسوں میں ہوا ہے دنیا کا کوئی قانونی نظام اپنی وسعت، جامعیت، گہرائی اورگیرائی میں فقہ اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دور حکومت میں آٹھ سو سال فقہ حنفی قانونی نظام کے طور پر حکومت چلاتا رہا… جبکہ تمام مسلم حکومتیں، عدل و انصاف ، سماجی، معاشرتی، عائلی، سیاسی اور قانونی مسائل اسی کے ذریعے حل کرتے رہے… مسلمان کیا غیر مسلم بھی اس کی جامعیت اور حقانیت کے معترف تھے… آج بھی اگر مسلم حکومتیں فقہ اسلامی کو اپنے نظام عدل و حکومت کا حصہ بنائیں تو بہت سے داخلی تنازعات و انتشار سے چھٹکارا ممکن ہے… فقہ اسلامی کی سب سے بڑی خاصیت اسکی لچک (Flexibility)ہے جو ہر دور میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فقہ اسلامی میں نظام قضا کے علاوہ نیم عدالتی ادارے بھی اہمیت کے حامل رہے ،جس میں ادارئہ افتاء یا دارالافتائ، تحکیم و ثالثی، وکالت، نظام احتساب وغیرہ شامل ہیں…کوئی بھی حقیقی اسلامی ریاست مذکورہ نظامہائے عدل و سلطنت سے خالی نہیں رہا ۔
[pullquote]افغان طالبان اور فقہ اسلامی کا نفاذ[/pullquote]
برصغیر کی طرح افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالتے ہی اس کا عملی نفاذ کیا۔ مگر بدقسمتی سے طالبان حکومت کے قیام کے بعد دنیا بھر میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا اور ان کو دہشت و بربریت کا علمبردار ٹھہرایا گیا،مغربی طاقتیں صف آراء ہوئیں جبکہ مد مقابل میں طالبان کو علمی اور نہ فکری طور پر جواب دینے کا موقع دیا گیا۔ جس سے صرف غیروں کے علاوہ اپنوں میں چہ میگوئیاں شروع ہونے لگی۔ بعض سادہ لوح طالبان کے غیر دانشمندانہ کاموں اور غیر سیاسی بیانات نے جلتی پر تیل کا کام دیا مگر ان سب سازشوں ،غلط بیانیوں کے باوجود آج بھی مشرق و مغرب کے دانشور اس بات پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ مغرب کو افغان طالبان سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ ایک دانشور نے تو یہاں تک لکھا کہ مغرب نے القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھا۔ ان کے تحقیقاتی ادارے اور تھنک ٹینک نے ان کے فکری پس منظرکو نہیں جانچا و گرنہ وہ اس طرح کی غلطی کبھی نہ کرتے۔
افغان طالبان کی حکومتی نظم و نسق بھی فقہ حنفی کے تحت چلتا رہا۔ جس میں انسانی حقوق سے لیکر خدائی حقوق تک سارا نظام موجود تھا اور تقریباً چھ سالہ دور حکومت میں ان کے عدالتی نظام اور دیگر اداروں افتاء وغیرہ میں اسی کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔
مقام شکر ہے کہ افغانستان کے سابق چیف جسٹس مولانا نور محمد ثاقب صاحب و سابق رئیس مرکزی دارالافتاء امارت اسلامی افغانستان ،اب ان فتاوی جات کو کتابی شکل میں مرتب کر رہے ہیں جسکی پہلی جلد ”بدرالفتاویٰ” کے نام سے شائع ہو چکی ہے بقیہ چار جلدیں زیر طبع ہیں۔
[pullquote]مسئلہ تکفیر میں افغان طالبان کا محتاط رویہ [/pullquote]
بدر الفتاویٰ افغان طالبان کی فکری حیثیت متعین کرنے انتہائی ممد و معاون ہے۔ مقدمے میں مرتب نے دارالافتاء کا طریقہ کار اور نظام قضا کا تفصیلی ذکر کیا ہے جبکہ مولوی محمد ابراہیم خلیل نے فقہ اسلامی کی اہمیت، ضرورت، فتوے کی شرعی اور تاریخی حیثیت کیساتھ ساتھ مفتیان کرام کی ذمہ داریوں پر تفصیلی مقالہ لکھا ہے۔
[pullquote]مسئلہ تکفیر اور افغان طالبان [/pullquote]
کتاب الایمان و العقائدسے فتاویٰ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ فتاویٰ کا پہلا سوال و جواب اس قدر منفرد اور حیران کن ہے کہ دل نہ ماننے پر تُلا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ملا ولی محمد سوال پوچھتے ہیں کہ مفتی صاحب! اگر کوئی شخص طالبان سے لڑنے والے (مقابل فوج) کی تکفیر کرے تو شرعی طور پر یہ کیسا ہے؟ مطلب یہ کہ طالبان کے خلاف لڑنے والے گروہ یا شخص کی تکفیر کرے تو اس تکفیر کرنیوالے شخص کی شرعی حیثیت کیا ہے؟(یعنی کفر کا فتویٰ لگانے والے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟)
مفتی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
”اگر کہنے والے نے علامات و اعمال کفر اس شخص میں بذات خود مشاہدہ کئے ہوں تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی عمومی طور پر تمام گروہ کو یہ نسبت کرنا درست نہیں اور اگر مشاہدہ نہ کیا ہو اور ویسے کفر کی نسبت کر رہا ہو تو پھر یہ شخص خود فاسق ہے۔” آگے فقہ حنفی کے معتبر کتابوں سے چند حوالے دئیے ہیں۔
[pullquote]عالم اسلام کے جہادی تنظیموں اور طالبان میں بنیادی فرق [/pullquote]
راقم کے خیال میں پہلے استفتاء اور اس کے جواب میں افغان طالبان کا فکری پس منظر واضح ہو جاتا ہے آج دنیا میں مسلح جہادی تنظیموں اور افغان طالبان کا بنیادی فرق ہے۔ داعش تمام اسلامی ممالک کو دارالحرب اور دارالکفر قرار دے چکی ہے ۔ وہاں کے مسلمانوں سے زبردستی ہجرت کرنے کا مطالبہ کررہی ہے ۔ داعش سمیت دیگر تنظیموں کا یہ موقف نہیں جو افغان طالبان کا ہے۔
[pullquote] پیروں کی اصلاح[/pullquote]
آگے کتاب السلوک میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نظام حسبہ) کے وزیر جعلی پیروں کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ” افغانستان کے بعض علاقوں میں ”خلیفہ صاحبان” کے نام سے ایسے پیر ہیں جو عالم نہیں، اُن کے حلقات ذکر میں منکرات ہوتے ہیں،جیسا کم عمر بغیر داڑھی والے لڑکوں کا وہاں جانا اور رقص کرنا ،ہم ان کے خلاف کیا کاروائی کریں؟؟
لیکن اس سوالنامے پر سربراہ مملکت ملا محمد عمر مجاہد اپنے مختصر نوٹ میں توجہ دلاتے ہیں کہ ”آپ تمام حضرات اجتماعی طور پر ایسا شرعی طریقہ بنائیں تاکہ آئندہ کیلئے وزارت امر بالمعروف کیلئے لائحہ عمل ہو۔”
جواب میں مفتی صاحب نے صحیح اور نیک مرشد کیلئے پانچ شرائط بمع دلائل بیان کئے ہیں پھر دیگر تفصیلات کے بعد ان کی اصلاح کیلئے طریقہ کار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”پہلے ان پیر ان حضرات کو شرعی مسائل بیان کریں یعنی Educateکریں اگر باز نہ آئیں تو اچھے اخلاق کیساتھ نصیحت کریں، پھر بھی منع نہ ہوئے تو تھوڑے وقت کیلئے جیل بھیج دیا جائے، یہ کام خوب احتیاط کیساتھ کیا جائے تاکہ اچھے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے یا اصلاح کا یہ عمل غیر شرعی طریقے پر چل نہ پڑے۔ آگے حدیث اور فقہ کی کتابوں سے حوالے دئے گئے ہیں۔
[pullquote]معاصر مسلح تحریکیں اور افغانی طالبان [/pullquote]
مذکورہ سوال و جواب کو آج کل جہادی تحریکوں کے بیانئے (Narratives)کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ ایک پیر کے اللہ تعالیٰ کے صریح نافرمانی کے باوجود اُس پر چڑھائی کا حکم نہیں دیا،نہ صغریٰ وکبری ملا کرنتیجہ اخذ کرنے اور تکفیر و تفسیق کا فتویٰ صادر کرکے اس پر چڑھائی کا حکم دیابلکہ دنیا کی دیگر عدالتی نظاموں کی طرح ایک واضح او رمثبت رائے پیش کی۔
ملا عمر مرحوم نے اجتماعی طریقہ کار کا مشورہ دیا اور مفتی صاحب نے اصلاح کی درجہ بندی بیان کی۔ یقینا ایسے درجنوں واقعات و حقائق ہیں جس سے افغان طالبان کے فکری پس منظر اور حکومتی نظم و نسق کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اسلئے بعض حقیقت حال دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان اپنے فکر و فلسفے، مسلک اور مزاج و مذاق کے حوالے سے داعش، القاعدہ، حزب التحریر، جبھة النصرة تحریک طالبان پاکستان ،بوکو حرام ،الشباب وغیرہ سے بالکل مختلف ہیں اور شائد یہی تصور اب جدید دنیا میں بھی اُبھرتا نظر آ رہا ہے۔
مولانا نور محمد ثاقب صاحب اس بہترین علمی فقہی ذخیرے پر ہم سب کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ آگے چل کر اس کام کو مکمل کرنے کے بعد نظام عدل وقضاء پر بھی کام کریں گے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے پشتو زبان کیساتھ اس کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی ہوجائے تاکہ دنیا کو دلیل کے طاقت سے سمجھایا جائے۔
[pullquote]شیعہ کمیونٹی کی حفاظت [/pullquote]
کئی ماہ پہلے داعش نے جب افغانستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو دھمکی دی اور ایک دو حملے بھی کئے اس کے بعد افغان طالبان نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے ان کو سیکورٹی فراہم کی اور ان کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا جو کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیربحث رہا۔یقینا یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
[pullquote]افغان طالبان پر مولانا سمیع الحق کی ایک عمدہ کاوش[/pullquote]
افغان طالبان پر سب سے زیادہ کام مغرب میں ہوا جو کہ ایک ردعمل کی صورت میں تھا جس میں حقیقت سے زیادہ جذباتیت اور نفرت(Baise)پر مبنی عنصر کار فرما تھا۔جس پر دوبارہ نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ قریبی عرصہ میں حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کی نئی کتاب Afghan Taliban War of Ideology & Struggle for Peaceبھی منظر عام پر آئی ہے جس میں تمام موجودہ مسائل (Current Issues) کے حوالے سے افغان طالبان کاموقف انتہائی سہل انداز میں بیان کیا گیاہے یقینامولانا صاحب کی یہ کتاب افغانستان اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کے درمیان مکالمے کیلئے بارش کا پہلا قطرہ ہے۔
[pullquote]بدرالفتاویٰ اور مغرب سے مکالمہ [/pullquote]
اس فتاویٰ سے بھی افغان طالبان سے مذاکرات اور مکالمے کی کئی جہتیں نکل سکتی ہیں،کیونکہ یہ فتاویٰ یا طالبان کا لیگل فریم ورک فقہ حنفی پر مبنی ہے۔اور فقہ حنفی آٹھ سوسال تک عدالتی اوردیگر نظاموں کو چلاتا رہا۔لہٰذا سیاسی نہیں ایک مذہبی پہلو سے اگر فقہ حنفی کو سامنے رکھ کر مغربی اسکالرز اور افغان علماء آپس میں مکالمے کا آغاز کریں تو زیادہ مفید ،دیرپا اور فریقین کے لئے بہتری کا باعث ہوگا۔اس سلسلے میں راقم کی تجویز اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا ،اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ، اور اسلامی فقہ اکیڈمی امریکہ بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔
خدا کرے کہ ایک مثبت مکالمے کا ماحول پیدا ہواور مشرق و مغرب میں تمام انسان سکون سے رہیں کیونکہ جنگ کبھی مسئلے کا حل نہیں رہا، بلکہ جنگ ہمیشہ بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے ،جس کا خمیازہ صرف ایک نسل نہیں بلکہ کئی نسلیں بھگتی ہیں۔
جنگ مشرق میں ہوکر مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پہ گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلے کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی