کشمیریوں کی تحریک کی تاریخ

موجودہ دور میں بھارتی سیناؤں نے نہتے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر ظلم و ستم کی بھیانک رقم قائم رکھی ہوئی ہے ، مقبوضہ کشمیرپر یوں تو برسوں سے ریاستی ظلم و بربریت قائم تھا ہی مگر بھارت کی انتہا پسند سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں انتہا پسندی اور ظلم و بربریت کی جہاں پورے ہندوستان میں ہوا چل رہی تھی وہی انتہا پسندی مقبوضہ جموں کشمیر میں انتہا کو پہنچ گئی، ایک سو زائد نہتے مقبوضہ جموں کشمیرکے شہریوں کی شہادت اور کئی سو زخمی کردیئے گئے، بھارت نہتے مقبوضہ جموں کشمیریوں کو بندوق کی زور پر ان کے حقوق کو سلب کرنے کی بہت بری غلطی کررہا ہے بھارت بھول گیا ہے کہ بندوق سے انگریز بھی کبھی نہیں کامیاب ہوسکے!!

مقبوضہ کشمیر کےحریت پسند جماعتیں یہ جانتی ہیں کہ پاکستان بھارت سے کئی گناہ ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور پاکستان کی نہ صرف ہمدردیاں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حقوق کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہےکیونکہ مقبوضہ کشمیر دراصل پاکستان کا ہی حصہ ہے ، پاکستان کے معروض وجود میں آتے ہوئے یہ طے کیا گیا تھا کہ وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے کشمیر مکمل مسلمان آبادی پر مشتمل تھا لیکن انگریز اور ہندوؤں کی سازش سے اسے متنازعہ بنادیا گیا،ان حالات کا جاننے کیلئے مین اپنے ناظرین کو تاریخ کے ورق میں لیئے چلتا ہوں کیونکہ یہاں مقبوضہ جموں کشمیر کی تاریخ کو جاننابہت ضروری ہے۔۔۔

تقسیم ہند کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سالاری میں برصغیر پر قابض استعماری حکومت کے کل پرزوں نے جس چارٹر کو بنیاد بنا کر بٹوارے کے رہنما اصول بنائے تھے کی رو سے تمام ریاستوں کو پاکستان و بھارت کے ساتھ مکمل الحاق کرنے کا اختیار دیا تھا۔ کشمیریوں کی اکثریت الحاق پاکستان کا نعرہ لگا چکی تھی مگر کشمیری راجہ ہری سنگھ نے انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے کشمیری قوم کی دلی امنگوں کا خون کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ27 اکتوبر1947 کو اتحاد کرلیا۔

بھارتی حکومت کے سیکریٹری وی پی مینن نے اسی روز جموں میں الحاق کی قرارداد پر کشمیری راجہ کے دستخط کروائے۔ کشمیری خطے پر تحقیق کرنے والے کئی محقیقین نے کشمیر و بھارت کے الحاق کی تاریخ24 اکتوبر بیان کی ہے۔ کشمیر و بھارت کے الحاق کے فوری بعد 27 اکتوبر1947 کو بھارتی افواج نے کشمیری مہاراجے کی درخواست کو بنیاد بنا کر جموں و سری نگر پر ہلہ بول دیا، بھارتی افواج کی آمد پر قائد اعظم غصے سے کانپنے لگے اور پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے تسلط سے بازیاب کروائیں تو گریسی نے قائد کے حکم کو یکسر مسترد کردیا، بھارتی قبضے کے رد عمل میں کشمیری نوجوانوں، قبائلی پٹھانوں نے بھارت کے خلاف آواز حق بلند کی اور بھارتی فوجیوں و حریت پسندوں کے درمیان خوب معرکہ آرائی ہوئی، بھارت نے17 جنوری1948 کو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست دائر کردی، بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ مجاہدین کے روپ میں پاکستانی فوجی کشمیر میں لڑ رہے ہیں،

بھارت نے سلامتی کونسل کو گارنٹی دی کہ بھارت کشمیریوں کو انکے حق خود ارادیت سے ضرور ہمکنار کریگا، بھارتی یقین دہانی کے بعد سکیورٹی کونسل نے پاکستان و بھارت سے جنگ بندی کی اپیل کردی،25 جنوری1948 میں کشمیر کمیشن کا تقرر کیا گیا،4 فروری1948 میں سیکیورٹی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیری مسئلے کا حل استصواب رائے سے کرایا جائے گا،21 فروری1948 میں سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درامد کروانے کے لئے کمیشن قائم کیا جو رائے شماری کے منصفانہ انعقاد کے لئے پاکستان و بھارت کی معاونت کے لئے بنایا گیا، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رائے شماری کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے،13اگست1948 کو یو این او نے پاک بھارت کو چار دنوں کے اندر جنگ بندی کا آڈر دیا تاہم جنگ بندی کی قرارداد پر یکم جنوری1949 کو عمل کیا گیا،5 جنوری1949 کو سلامتی کونسل نے کہا کہ استصواب رائے ہی کشمیری جھگڑے کا انصاف پسندانہ حل ہے کیونکہ فرد واحد یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کو لاکھوں کشمیریوں کی آرا کو دھتکارنے کا کوئی حق نہیں۔

سلامتی کونسل نے ایک طرف جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کروانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کردئیے تو دوسری طرف استصواب رائے کا طریقہ کار بھی وضع کیا 6نومبر 1947 میں جب کشمیری عوام نے الحاق پاکستان کے لیے بھرپور جہدوجہد شروع کی تو ڈوگرہ حکومت حواس باختہ ہو گئی اور اس نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے خاتمے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا، ریاست جموں و کشمیر کے کئی علاقے مسلمانوں کے خون سے رنگ گئے ، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گیا ، آچاریہ کرپلانی جو اس وقت آل انڈیا کانگرس کے صدر تھے ، انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا،جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے نہایت بہادری سے ہندوئوں اور ڈوگرہ فوجوں کا مقابلہ کیا ،جب مکار بھارتی حکمرانوں نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر انکے قابو میں نہیں آ رہے تھے انہوں نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کے پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں اس لئے تمام مسلمان پولیس لائن گرائونڈ جموں میں پہنچ جائیں،مسلمانوں کے اس وقت کے گورنر جموں سے مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ مسلمان پاکستان ہجرت کر جائیں اور جب جموں میں حالات ٹھیک ہو جائیں تو واپس جموں آ جائیں ، اس دوران مسلمان قافلوں کی شکل میں پاکستان آنے کے لیے اکٹھے ہونے شروع ہوئے ، لیکن پاکستان آنے کے بجائے شہید کرا دیئے گئے.

،4 نومبر، 5نومبر ، 6 نومبر اور 7 نومبر 1947 کو رایست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ، 4 نومبر کو تقریبا 4 ہزار مسلمانوں کا ایک قافلہ پاکستان کے لیے روانہ ہوا لیکن ماوا کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کر کے ان مسلمانوں کو شہید کر دیا،اس کے بعد 6 نومبر 1947 کو 70 ٹرکوں پر مشتمل مسلمانوں کا قافلہ پاکستان روانہ ہوا لیکن اس قافلے پر بھی حملہ ہو گیا اور ستواری کے مقام پر مسلح حملہ آوروں نے اس قافلے میں شامل مسلمانوں کا خون بہایا ،7 نومبر کو پھر یہی سب کچھ دہرایا گیا ، 7 نومبر کو ظلم کی انتہا کی گئی ، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گئےاور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، 7 نومبر کو پاکستان کی جانب روانہ ہونے والے کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ،اس سے قبل 20 اکتوبر 1947ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزار مسلمانو ں کو شہید کر دیا گیا لیکن جموں کشمیر کے مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور الحاق پاکستان کے جہدوجہد جاری رکھی ، نومبر 1947 میں بے پناہ شہادتوں کے بعد بھی مسلمانوں کی الحاق پاکستان کے لیے جہدوجہد تھمی نہیں ہے اور بھارتی فوج کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کے شہید ہونے کے باوجود کشمیری مسلمان اپنے دل میں الحاق پاکستان کے لیے خواہش رکھے ہوئے ہیں، دراصل مقبوضہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ، بانی پاکستان نے یہ بات ویسے ہی نہیں کہی تھی 1947 سے لیکر آج کے دن تک الحاق پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے ثابت ہوتا ہےمقبوضہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے یہی وجہ ہے مقبوضہ کشمیری مسلمان الحاق پاکستان کے لیے قربانی مسلسل دے رہے ہیں ،

قابض بھارتی فوج اور جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کشمیریوں کے جزبہ آزادی اور الحاق پاکستان کی خواہش کو دبا نہیں سکی ہے، بھارت کے زیر قبضہ شمالی ریاست جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے، جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے جاملتی ہیں، پاکستان میں جموں و کشمیر کو اکثر مقبوضہ کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے،جموں و کشمیر تین حصوں جموں، وادی کشمیر اور لداخ میں منقسم ہے، سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے، وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے ، لداخ جسےتبت صغیر بھی کہا جاتا ہےاپنی خوبصورتی اور ثقافت کے باعث جانا جاتا ہے، ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ مت اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں،مقبوضہ کشمیر دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے، علاقہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے،بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 28 فیصد اور لداخ میں 44 فیصد ہیں۔

جموں میں ہندو 66 فیصد اور لداخ میں بدھ 50 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں۔یہ تھا مقبوضہ کشمیر کا جغرافیائی اور مذہبی احاطہ۔۔ !! معزز قائرین!! بھارتی حکومت اور افواج جس قدر ظلم و بربریت ڈھاتی رہے گی اسی قدر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی امنگ بڑھتی رہے گی ، دنیا میں کبھی بھی اور کہیں بھی جنگ و دجل سے دبایا نہیں جاسکتا ہے ، شہریوں کے دلوں کو ان کے حقوق کی پاسداری سے جیتا جاتا ہے ، بھارت 1947سے ہی بد نیتی اور جبر کی پالیسی پر گامزن رہا ہے ،بھارتی حکمرانوں کے نزدیک ریاست کا حل ظلم و جبر میں پہنا ہے مگر یہ ان کی خام خیالی انہیں بہت منگی پڑے گی،حالیہ دونوں میں بڑھتی بھارتی ظلم و ستم کی روش نے اب مقبوضہ کشمیریوں کو اس بابت سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے بھارت کا انخلا اسی وقت ممکن ہوگا جب ہر مقبوضہ کشمیر کا شہری سر پر کفن باندھ کر بھارتی سورماؤں کےفوجی ڈویژنوں، فوجی ادوں، فوجی رسد گاہوں اور فوجی قافلوں میں گھس کر خود کش حملے کرنا شروع کردے کیونکہ اب برداشت سے باہر معاملات ہوگئے ہیں۔۔!!تقریباًاسی سال بیت گئے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر یوں کے حقوق کی پامالی کرتے تھکتا نہیں اوراپنے ظلم و بربریت میں اضافہ کیئے جارہا ہے، وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیرکے مرد و خواتین نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کو خودکش حملوں سے پسپا کردیں گے بلکہ بھارت کے دیگر شہروں میں داخل ہوکران کے انتہا پسند رہنماؤں، تنطیموں کوبھی نشانہ بناکر ایسا سبق سیکھائیں گے کہ پھربھارت کسی بھی قوم کے حقوق کو ظلم و بربریت سے ختم کرنے کی سوچے گا بھ نہیں !!بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلے کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے تحت فی الفور حل کرنا چاہیئے بصورت بھارت نا تلافی نقصان سے دوچار ہوجائیگا!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے