لڑکیوں کےمدارس میں ہاسٹل کی شرعی حیثیت

مجھے الیاس گھمن صاحب کے کردار کے بارے گردش کرتی خبروں پر اس وقت کوئی تبصرہ تو نہیں کرنا لیکن مذہبی طبقات سے دو اصولی سوال کرنے ہیں کہ اگر الیاس گھمن صاحب لڑکیوں کا کوئی مدرسہ چلا رہے ہیں اور یہاں ہر مسلک میں کچھ علماء ایسے ہیں کہ جو لڑکیوں کا مدرسہ چلا رہے ہیں اور اس مدرسہ کے ہاسٹل میں دوسرے شہروں سے لڑکیاں آ کر رہائش پذیر بھی ہوتی ہیں۔

تو پہلا سوال یہ ہے کہ علماء کالجوں، یونیورسٹیوں پر اتنا بولتے ہیں، محرم کے بغیر سفر کرنے کو حرام بتلاتے ہیں، حجاب اور نقاب کے بارے اتنے سخت فتوے جاری کرتے ہیں، مخلوط معاشرت کو حرام بتلاتے ہیں۔ پس عورت کے حجاب واختلاط کے حوالے سے جو بیانیہ ہمارے برصغیر پاک وہند اور عرب کے علماء کا ہے، اس کی روشنی میں کیا دوسرے شہروں سے لڑکیاں لا کر اپنے شہر کے مدرسہ کے ہاسٹلوں میں رکھنے کا جواز نکلتا ہے کیا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں لڑکیوں کے ان ہاسٹلز کا کیا جواز ہے جبکہ ان کے مہتم ومنتظم مرد حضرات ہیں؟ چاہے وہ علماء ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی تو ساری خرابی کی جڑ ہے کہ آپ مولوی کے لیے دین کی تعلیم پر وہ ساری رخصتیں نکال رہے ہیں، کہ جو آپ دنیاوی تعلیم میں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا آپ علماء کی جماعت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں موجود لڑکیوں کے ہاسٹلوں پر تنقید نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو کیوں؟ کس بنیاد پر؟ کیا دلیل ہے؟ اور وہی دلیل کیا مدرسہ کے ہاسٹل پر منطبق نہیں ہوتی؟

میری رائے میں، جیسا کہ بعض دوستوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے، ہمیں یعنی دینی طبقات اور مذہبی جماعتوں کو اس ہر اتفاق کر لینا چاہیے کہ لڑکیاں دینی تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جا کر مدارس کے ہاسٹلز میں نہیں رہیں گے۔ اگر کسی نے تعلیم حاصل کرنی ہی ہے تو اپنے شہر کے مدرسہ میں حاصل کرے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی شہر کے مدرسہ میں جو لڑکیوں کے مدارس ہیں، ان کا مکمل انتظام وانصرام خواتین کے ہاس ہونا چاہیے۔ اگر آپ کے پاس ایسی قابل خواتین نہیں ہیں تو مدرسے بند کر دیں اور اسلامک اسکولز کھول لیں، ان شاء اللہ، آپ کو وہاں دیندار اور قابل پرنسپلز ضرور مل جائیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے