ایک اہم سماجی مسئلہ

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر صاحب بھلے آدمی ہیں۔ فیس بک کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج عوام کے ساتھ اہم معلومات شیئر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ گزشتہ روز ان کے فیس بک پیج نے اسلام آباد،راولپنڈی اور دیگر علاقوں کے عوام کو بروقت آگاہ کیا کہ 6 محرم کو رات 10:30 سے اسلام آباد ایکسپریس ہائے وے شکریال کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند رہے گی۔ اس عارضی بندش کی وجہ 6 محرم الحرام کا جلوس بتلایا گیا اور عوام الناس سے متبادل راستہ اختیار کرنے کا کہا گیا۔

کہنے کو یہ ایک روٹین کی بات ہے کہ جلوس نکلتے رہتے ہیں اور ٹریفک کا تعطل اس ملک میں ایک معمولی بات ہے، مگر تھوڑا غور کیا جائے تو معاملہ اتنا سادہ نظر نہیں آتا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسی یہ جانتے ہیں کہ اسلام آباد ایکسپریس ہائے وے کی کیا اہمیت ہے۔ جڑواں شہروں کے باسی اور دیگر شہروں سے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد آنے والا ہر شخص اس سڑک سے گزر کر اسلام آباد پہنچتا ہے۔ ایئرپورٹ سے آگے جتنی بھی آبادی ہے وہ ایمرجنسی میں اسلام آباد کے اسپتالوں تک بروقت رسائی کے لیے یہی شاہراہ استعمال کرتی ہے۔ بڑے حادثات اور صحت کے پیچیدہ مسائل کے لیے دیگر شہروں سے مریض اسلام آباد کے پمز اسپتال میں ریفر کیے جاتے ہیں، ان کے لیے بھی آمدورفت کا سب سے مناسب اور براہ راست راستہ ایکسپریس ہائے وے ہی ہے۔ اسلام آباد کے مکین ایئرپورٹ تک رسائی کے لیے بھی شکریال سے گزر کر جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام آباد ایکسپریس ہائے وے کی چند منٹوں کے لیے بندش بھی بلامبالغہ ہزاروں افراد کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اس سے سینکڑوں گاڑیاں ٹریفک میں پھنس جاتی ہیں اور پورا نظام معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ شاہراہ اتنی اہمیت کی حامل ہے تو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اس کی بندش کی اطلاع کیوں دے رہے ہیں؟ آخر کونسی ایسی مجبوری ہے کہ جلوس کسی متبادل روٹ پر نہیں جاسکتا اور اس کے لیے ہر صورت میں ایکسپریس ہائے وے کو بند کرنا ضروری ہے؟ یہ وہ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کے لیے کوئی موجود نہیں۔ جونہی آپ یہ بات کرتے ہیں تو ایک خاص حلقے کی مسلکی و مذہبی آزادی کا حق خطرے میں پڑنے کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی چاہے جانیں کیوں نہ چلی جائیں مگر جلوس بہ ہر حال نکلنا ضروری ہیں!!

اسلام آباد میں پہلے 9 محرم الحرام کا جلوس میلوڈی اور اس کے گرد و نواح میں نکلتا تھا۔ یہ ایک روایتی روٹ تھا اور اسلام آباد کے باسی اپنے معمولات کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کرلیتے تھے۔ 10 محرم کا جلوس راولپنڈی میں ہوتا تھا اور اس دن اسلام آباد کھلا رہتا تھا۔ تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے ایک نیا رجحان سامنے آرہا ہے۔ان مذہبی کم سیاسی جلوسوں کے لیے شاہراوں کو بند کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اب اسلام آباد میں 8 محرم کو کراچی کمپنی کے علاقے میں جلوس نکالا جاتا ہے اور اس سے شہر کا وہ حصہ بند ہوکر رہ جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی روایتی جلوس نہیں۔ کراچی کمپنی کا علاقہ ہمارے سامنے وجود میں آیا ہے اور وہاں کوئی روایتی روٹ موجود نہیں تھا۔ اسلام آباد کی مرکزی ہائے وے کو بند کرنا بھی اسی نئے رجحان کا تسلسل ہے۔
یہ رجحان کہ مرکزی شاہراہوں کو بند کیا جائے اس کا کسی مذہبی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سراسر ایک سیاسی عمل ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شو آف پاور کرنا اور دوسروں کو مرعوب کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی آبادیوں اور ہاو¿سنگ اسکیموں میں مخصوص حلقے کی آبادیوں کو اس انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو کم از کم وقت میں احتجاج یا جلوس کی صورت میں بند کیا جاسکے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک حکمت عملی ہے، چنانچہ پوری تندہی سے اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعداد میں قلیل افراد بھی دھرنا دے کر یا پھر معمولی رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک کو معطل کردیتے ہیں اور اپنی سیاسی قوت کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ صرف اسلام آباد کا مسئلہ نہیں، ملک کے تمام بڑے شہروں کا یہ المیہ ہے۔ حکومت کو مرکزی شاہراہوں پر کسی بھی قسم کے جلسے یا جلوس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ حالات بھی مناسب نہیں ہیں۔ بد قسمتی سے بجائے نظم عامہ کو متاثر کرنے والے ان جلوسوں کو خاص دائرے میں محدود کرنے کے حکومت خود شہری نظام کو معطل کرنے اور لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے کے لیے روٹ فراہم کرتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو مسلک و مکتب فکر کی عینک سے دیکھنے کی بجائے خالص انسانی، انتظامی اور سماجی بنیادوں پر دیکھا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے