پرائیویٹ جہاد اور کشمیریوں کاارزاں لہو

آج کل پاکستان اور بھارت کے میڈیا پر تاریخ کی تیسری بڑی جنگ لڑی جارہی ہے جنگی جنون میں مبتلا افراد آج خود کو زمانے کے پاکبازوں میں شمار کررہے ہیں دو طرفہ جنگی جنونیوں کا نظریہ ایک ہی ہے کہ انسانی خون سے ان کے گناہ دھل جائیں گے اور موت کی صورت میں وہ خون کے دریا میں بہتے ہوئے جنت تک پہنچ جائیں گے یا انسانوں کی ”بلی “ چڑھائے جانے سے ان کا دیوتا خوش ہو جائیگا اور انہیں”شانتی “مل جائے گی۔

جنگی جنونیوں کی خوشی کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب پاکستان اور بھارت کی افواج نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع ریاست جموں و کشمیر میں بھاری توپوں سے گولے پھینکنا شروع کیے۔ فولادی گولے لائن آف کنٹرول کے اس جانب گریں یا اس جانب دونوں اطراف بربادی ہی لاتے ہیں اور گولوں کے گرم آہنی ٹکڑے بے گناہ اور نہتے کشمیری عوام کے جسموں پیوست ہوتے ہیں۔

ابھی تک پاکستان نے ایسا کوئی میزائل ایجاد نہیں کیا جو ہندو اور مسلمان کی پہچان کر سکے ۔ جہاد کے نام پر روزی روٹی کمانے والے نام نہاد مذہبی اسکالروں نے اسے” مقدس جنگ“ قرار دے کر کم علم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش بھی کی۔

اس سے قبل افغانستان کی سر زمین کو” مقدس جنگ“ کا مقام قرار دے کر ہزاروں انسانوں کو مروایا جا چکا ہے اور اب یہی لوگ کشمیر میں ”مقدس جنگ “کے نام پر جہاد کا نیا ٹھیکہ لینے کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں مگر یہ لوگ جہاد سے زیادہ فسادبرپا کرنے والے اور خارجیت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں ۔

قران پاک کی پہلی آیت میں فرمایا گیاہے کہ” تمام تعریفیں اس ذات کی جو تمام عالم کا رب ہے“ اس میں باری تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں صرف مسلمانوں کا ”رب “ہوں بلکہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ میں‌عالم کا رب ہو ں جس میں یہودی ،ہندو ،بدھ ،دہریے سب شامل ہیں ۔

اگر یہ سب خدا کی ہی تخلیق ہے تو پھر قتل عام کیونکر کیا جارہا ہے؟ زمین میں فتنہ کیوں برپا کیا جاہا ہے ؟دنیا کا ہر مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے مگر اس کے باوجود انسان انسان کے خون کا پیاسا کیونکرہے؟ کیا خون بہانہ قران پاک میں بیان کیے گئے ”نیک عمل“ پر پورا اتر رہاہے۔

اسلام کی رو سے جہاد کو دیکھا جائے تو اسلامی ریاست جہاد کا باضابطہ اعلان کرتی ہے ۔ لشکر تیار کر کے حملہ کیا جاتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جب بھی کسی علاقہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ ہوا یاکسی سے جنگ کی ضرورت پڑی تو ریاست میں لشکر کی تشکیل کیساتھ ساتھ مخیر حضرات سے جنگی سازوں سامان کی بھی اپیل کی گئی ۔

یہ اعلان کسی ایک گروہ یا فرقے کی جانب سے نہیں کیا جاتاتھا بلکہ ریاست کی جانب سے اپیل کی جاتی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے یہ مسلح گروہ قطعاًجہاد کے شرعی حکم پر پورا اترتے ہیں ؟یہ فرقے بیک وقت ریاست کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور ریاست کو تسلیم کرنے سے انکاری بھی ہو جاتے ہیں،یہی اصل میں دھوکہ بازی ہے۔ اسلام کی رو سے ریاست کو جہاد کا فیصلہ کرنے جبکہ اسلامی لشکر کو لڑائی کرنے کا حق حاصل ہے۔

پاکستانی ریاست نے ابھی تک کشمیر کے حوالے سے جنگ کا اعلان نہیں کیا بلکہ 1947سے آج تک حکومت پاکستان کا ہی موقف رہا کہ وہ کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی و سفارتی حمایت کری گی. اس اعلان کے باوجود اگر جہاد کا پرائیوٹ ٹھیکہ جاری ہوا تو وہ جہاد نہیں بلکہ فساد کے زمرے میں آتا ہے اور اسی فساد نے 5لاکھ کے لگ بھگ کشمیری مسلمانوں کو ”بلی “چڑھا دیا ہے۔

1990میں شروع ہونیوالی آزاد ی کشمیر کی صلح جدوجہد کو ہائی جیک کرنے کیلئے بھی جہاد کے ٹھیکے جاری کیے گئے جب اولین ٹھیکیدار توقعات پر پورا نہ اتر سکے تو قاتلوں،بدکرادروں ،چوروں، ڈکیٹوں پر مشتمل ”پاکیزہ گروپ“ کو میدان میں لایا گیا جنہوں نے آزادی پسندکلمہ گو مسلمانوں کو جعلی مقابلوں میں تہہ تیغ کیا ۔

ان پرائیوٹ ٹھیکہ گروپ کی کارستانوں نے کشمیریوں کی آزادی کی شمع تو بجھا دی مگر اپنی روزی روٹی کا کئی برسوں تک بندوبست کر لیا ۔کم علم جہادی ان کے بہکاوے میں آکر مرتے جارہے ہیں اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ درجنوں بے گناہ کشمیریوں کو بھی مروا رہے ہیں ۔خون کی ندی بہہ رہی ہے مگر اس کا رخ نامعلوم سمت ہے۔

جنگی جنون کے خلاف اور کشمیر میں قیام امن کیلئے ایک ہفتہ قبل لاہور میں مقیم کشمیری نو جوان نے جو کہ مختلف سوچ اور نظریہ سے تعلق رکھتے تھے ایک پر امن احتجاج کا فیصلہ کیا ۔تمام دوستوں کو آگاہ کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی بھی ملک کیخلاف نعرہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ کشمیر میں قیام امن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا جائیگا ۔

کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے پر تمام دوستوں محسن علی ،جواد عباسی ،نعمان الاسلام ،اکرام خان اور دیگر کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یک آواز ہو کر امن کیلئے آواز بلند کی ۔ آئندہ بھی اسی طرح آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔

کشمیر کو موجودہ صورتحال میں امن کی ضرورت ہے، خون کی ندیاں بہانے سے پیچیدہ مسائل کسی بھی صورت حل نہیں ہو سکتے۔پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ صرف کشمیریوں کی وکالت ہی کرے نجی مہم جوئیاں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے