محرم الحرام اور دوہراحکومتی رویہ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ اس ماہ اقدس میں اللہ تبارک تعالٖیٰ کی رضا کیلئے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم ہے جو حضرت اسماعیلؑ فرزند خلیل اللہ کی رب کی رضا کی خاطراپنے گلے پر چھر ی چلانے کی اجازت سے شروع ہوتی ہوئی حضرت عمرفاروق کی شہادت سے لے کر اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے واقعہ پر ختم ہوتی جس میں نواسہ رسول ہاشمی، لخت جگر فاطمہ حضرت امام حسین نے اپنے نانا کے دین کی سرفرازی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا ۔

حضرت امام حسین نے مو ت قبول کرلی لیکن شمر اور ابن زیاد کی پیروی سے انکار کردیا ۔ کر بلا کی دھرتی پر وقوع پذیر ہو نے والا یہ واقعہ دراصل مسلمانوں کو جرات ، بہادری اور باطل کے سامنے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم الشان واقعہ سے جرات اور دین رسولؐ کی خاطر کٹ مرنے کا سبق حاصل کر نے کی بجائے اُس دن کو یوم ماتم سمجھ لیا جس روز یہ واقعہ رونما ہوا تھا اور نجانے کتنی جاہلانہ رسومات کو اس دن کے ساتھ منسوب کردیا ۔

ایک بات سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔ ایک مکتب فکر کے پیرو کار تو یوم وفات رسول کریم ؐ یعنی 12 ربیع الاول کو جشن مناتے ہیں اور دوسرے مکتب فکر کے لوگ یوم شہادت حضرت امام حسین پر ماتم کرتے ہیں ۔ آخر یہ ماجرا کیا ؟

دونوں ہستیاں اس دنیا سے رخصت ہوئیں لیکن لوگوں کا دونوں برگزیدہ ہستیوں کی شہادت پر الگ الگ طرزعمل کیوں ؟

بات سے بات نکلتی گئی اور کہا ں سے کہاں تک پہنچ گئی ۔ چلو اب اپنی اصل بات پر واپس آتے اور بات کرتے ہیں عوام کے ساتھ حکومتی زیادتی اور ناانصافی کی ۔
حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ یہ ہے لوگوں کو یکساں مذہبی حقوق فراہم کرے ۔ حکومتی دعوے ایک طرف لیکن حکومت وقت چاہتی ہی نہیں کہ وہ عوام کو مساوی مذہبی حقوق فراہم کرے ۔ ایک طرف تو حکومت نے اپنی ذاتی رنجشوں اور انا کو بنیاد بنا کر ملک پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے مکتب فکر کے لوگوں کی مذہبی آزادی کو کچلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ۔ حکومت وقت نے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر سینکڑوں مدارس کو بند کردیا بہت سے علما اکرام کو جیل کی سیر کروائی جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ مولانا صاحب کی جمعہ کی تقریر نام نہاد سیاستدان کو پسند نہیں آئی تھی ۔

حَيَّ عَلَىٰ ٱلصَّلاة ( آو ْ نماز کی طرف ) حَيَّ عَلَىٰ ٱلْفَلاَح ( آْوْ کا میابی کی طرف ) کی صدا جس کو موذن رسول حضرت بلال حبشی بلند آواز میں مدینہ کی چھت پر پڑھتے تھے میرا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اُس میں لاوڈ اسپیکر میں پڑھنے کی اجازت نہیں ۔ اس مکتب فکر کی مذہبی ریلیوں پر پابندی لگادی جاتی ہے مدارس کے طالب علموں کو بغیر ثبوت دہشت گرد قرار دیکر کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جاتاہے یا جعلی پولیس مقابلے میں شہید کردیا جاتاہے ۔

کبھی حکومتی نمائندے پارلیمنٹ کے فلور پر اس فرقے کے علما حضرات کے خلاف بازاری زبان استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف ایک اور مکتب فکر ہے جس کے پیروکار جو مرضی کریں اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ شاید حکومت اُن کے جلسےجلوسوں پر پابندی لگانا بھول گئی ہے یا لگانا ہی نہیں چاہتی ۔ وہ چاہے گلی ،محلوں اور قومی شاہراہ پر محفلیں منعقد کریں ، محرم الحرام میں جلوس نکال کر لوگوں کی زندگی مفلوج کریں ، جلوس کی راہ میں آنے والے مدارس کو آگ لگا دیں ، پاکستان کی بجائے کسی اور ملک سے وفا کے ترانے پڑھیں کو ئی پوچھنے والا نہیں ۔

پھر کدھر گئے حکومت کے مساوی مذہبی حقوق کے دعوے ؟
اگر ایک فرقے کی ریلیوں پر پابندی لگ سکتی ہے تو پھر دوسرے فرقے کے محرم الحرام کے جلوسوں پر کیوں نہیں ؟
بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی حکومتی ادارہ پیمرا نے بھی اس معاملے میں میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ جب تک کوئی شخص حکومت کے من پسند فقہ کا ٹیگ گلے میں نہ پہنے اُس وقت وہ ٹی وی سکرین پر آکر گفتگو نہیں کرسکتا ۔ ایک طرف حکومت سائبر کرائم کا بل پاس کرتی ہے دوسری طرف مخصوص چینلز پر صحابہ کی حرامت کو مجروع کرنے ، واقعہ کربلا کے تقدس کی پامالی اور دوسرے فقہ کے عقائد پر غلیظ کچڑ اُچھالنے والے علامہ حضرات کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی ۔ کیا سائبر کرائم کا بل صرف کریڈٹ لینے کے لیے پاس کیا یہ پانامہ کے مسئلے کے خلاف بولنے والوں اور حمزہ علی عباسی کا منہ بند کرنے کیلئے پاس کیا ہے ؟اگر منصف خود ظلم بنا جائے تو پھر مظلوم کس سے فریاد کرے کسے اپنی داستان سنائے ؟

اسطرح کے ظالمانہ حکومتی رویے کس ملک وملت میں فسادات کو جنم دیتے ہیں ۔ لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کو راستہ نہیں رہتا کہ وہ اب حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ۔ابھی بھی کچھ نہیں بدلا حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی ۔ کوئی ایسی پالیسی مرتب کرنا ہوگی جو تمام مکتب فکر کے لوگوں کو یکساں مذہبی حقوق فراہم کرے ورنہ حالات جس طرف لے کر جارہے ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہے ۔

[pullquote]مضمون نگار کی رائے کے خلاف اگر کوئی لکھنا چاہے تو رابطہ میں جا کر اپنا تحریر بھیج آئی بی سی اردو کے میل ایڈرس پر بھیج دے ، شکریہ[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے