[pullquote]” یہ حق آپ کو دیا کس نے ہے ”
[/pullquote]
ایک صاحب علم تکفیر کے مسئلہ پر اپنی قیمتی ارا سے مسلسل اگاہ کرتے رہتے ہیں.ان کا شکریہ کے وہ علمی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں .اسی سلسلے میں انھوں نے ایک اور سوال اٹھایا ہے کہ عدالت بھی مجرم کے حالات اور جرم کی نوعیت سے سزا میں فرق کرتی ہے.آخر عدالت بھی تو دل کے حالات نیت اور ادارے معلوم کر لیتی ہے. پھر ہم کسی کی تکفیر محض اس بنیاد پر کیوں نہ کر یں کہ اس کے دل کی کیفیت معلوم نھیں. جیسے عدالت کو معلوم ہوتا ہے ہم بھی معلوم کرلیں گے.
اس پر عرض یہ ہے کہ عدالت کسی کو مجرم قرار دیتی ہے جب اس نے کسی کی حق تلفی کی ہو یا جان مال آبرو پر حملہ کیا ہو .یہ حق تو عدالت کو حاصل ہے. عقل بھی مانتی ہے اور معاشرے نے بھی اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ مجرم کو کٹہرے میں کھڑا کرے, اس سے تفتیش کرے، قرائن تلاش کرے. اور اس کے بارے میں فیصلہ کرے ،. یہ آپ کو کس نے حق دے دیا کہ آپ اپنی عدالتیں لگا کر لوگوں کے کفر و ایمان کا فیصلہ کریں. کفر شرک ارتداد اگر تو زید عمر بکر کے ہرن کی جگہ بندہ مارنے کی طرح جرم ہے تو اس کا فیصلہ ہم دنیا میں کریں گے.لیکن ایسا ہرگز نھیں ہے. یہ تو خدا کے خلاف جرائم ہیں, دنیاوی جرائم نھیں ہیں.اس لیے ان کے بارے میں آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ ان کے انکار کی وجہ پر بات بھی کریں. اور فیصلہ سنائیں فلاں کافر ہے فلاں کافر نھیں. یہ انسان ہے .وہ فیصلہ کرے گا کہ اسے ایمان اختیار کرنا ہے یا نھیں کرنا.
آپ کو یہ حق کس نے دے دیا کہ ایمان کے قبول و رد کی وجوہات جانیں.یہ حق اگر تو دین نے دیا ہے تو پھر اس پر ہمارا سوال ہمیشہ سے موجود ہے. اب فاضل محقق کو آگے بڑھ کر یہ بتا دینا چاہیے کہ قرآن مجید کے فلاں آیت یا فلاں حدیث ہمیں یہ حق دیتی ہے کہ ہم مسلمان کی حیثیت سے لوگوں کے کفر و ایمان کا فیصلہ کریں.
[pullquote]سوال پھر پیش خدمت ہے
[/pullquote]
تکفیر ایک دینی عمل ہے ۔جس میں ہم کسی دوسرے کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں.یہ اختیار مسلمانوں کو دیا کس نے ہے کہ وہ دوسروں کے انکار کی وجہ ان کے دل میں اتر کر دریافت کریں اور کفر کے فتوے صادر کریں.یہ فیصلہ انسان نے کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔اگر تو یہ مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے تو دینی اعمال کے مشروع ہونے کی ہمیشہ اثباتی دلیل درکار ہوتی ہے ۔لہذا فاضل محقق کو یہ بتانا چاہیے کہ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو کہاں یہ حکم دیا گیا کہ لوگوں کی تکفیر کی جائے .
اس پر کوئی یہ نھیں کہہ سکتا کہ چونکہ قرآن و حدیث میں تکفیر کی ممانعت موجود نھیں اس لیے تکفیر ایک مباح عمل ہے.اس غلط فہمی کے حوالے سے یہ جان لینا چاہیے کہ اگر کسی دینی حکم کو ثابت کرنے کی دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہیں تو ہر چیز جسے آپ دین بانا چاہتے ہیں, اصلا ممنوع ہے۔مثال کے طور پر کوئی کہے کہ میں آج سے چھ نمازیں پڑھوں گا قرآن و سنت میں چھ نمازیں پڑھنے کی کہیں نفی نھیں کی گئی ،تو کیا اس یہ استدلال قبول کر لیا جائے گا ،ہرگز نھیں بلکہ جواب میں فورا آپ پانچ نمازوں کے اثبات کی دلیل پیش کردیں ۔گویا کسی دینی کام کے مشروع ہونے کا ذریعہ قرآن و حدیث کی خاموشی نھیں ہوتی ،بلکہ اثبات ہوتا ہے ۔
[pullquote]”قرآن مجید میں تکفیر کی ممانعت نھیں آئی”
[/pullquote]
یہ جملہ عام طور پر اہل علم دوسروں کی تکفیر کے جواز کے لیے بطور استدلال پیش کرتے ہیں ۔اس پر عرض یہ ہے کہ اگر تو کوئی کام دینی نوعیت کا نھیں ہے مثلا میں چہل قدمی کرتا ہوں اور قرآن مجید میں اس کی ممانعت بھی نقل نہیں ہوئی تو یقینا ہمیں حق ہے کہ ہم زور و شور سے کریں ،وہ ایک جائز عمل ہے ۔اور اصلا مباح ہے۔
لیکن اگر کوئی دینی عمل ہو جیسا کہ تکفیر ایک دینی عمل ہے ۔جس میں ہم کسی دوسرے کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں ، تو دینی اعمال کے مشروع ہونے کی ہمیشہ اثباتی دلیل درکار ہوتی ہے ۔اگر حکم کو ثابت کرنے کی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں تو ہر چیز جسے آپ دین بنانا چاہتے ہیں اصلا ممنوع ہے۔الا یہ کہ قرآن و سنت میں اس کی تائید کی مثبت دلیل سامنے آجائے ۔
مثال کے طور پر کوئی کہے کہ میں آج سے چھ نمازیں پڑھوں گا قرآن و سنت میں چھ نمازیں پڑھنے کی کہیں نفی نھیں کی گئی ،تو کیا اس یہ استدلال قبول کر لیا جائے گا ،ہرگز نھیں بلکہ جواب میں فورا آپ پانچ نمازوں کے اثبات کی دلیل پیش کردیں ۔گویا کسی دینی کام کے مشروع ہونے کا ذریعہ قرآن و سنت کی خاموشی نھیں ہوتی ،بلکہ اثبات ہوتا ہے ۔