ترسیلات زر کا درست استعمال

چند دن پہلے میں نے بیرون ملک سے آنے والی رقوم یعنی ترسیلات زر یا ریمیٹنسزکی اہمیت پر ایک مضمون تحریر کیا تھا، جس کے اختتام پر میں نے یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ میں ترسیلات زر کے درست استعمال پر بھی ایک مضمون تحریر کروں گا۔ مذکورہ مضمون پیش خدمت ہے، میری درخواست ہے کہ اگر آپ کو میری تحریر منطقی اور قابل عمل محسوس ہو، تو اپنے حلقہ احباب میں ایسے لوگوں کے ساتھ ضرور شیئر کیجئے جو ان تجاویز کو عملی جامہ پہنچانے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔

[pullquote]ترسیلات زر کی اہمیت: مختصر جائزہ[/pullquote]

ترسیلات زر کی اہمیت کا تفصیلی تذکرہ گذشتہ مضمون میں کیا جا چکاہے، تاہم مختصر جائزہ ان احباب کیلئے پیش کیا جا رہا ہے جنہوں نے گذشتہ مضمون نہیں دیکھ رکھا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سال 2015-2016 میں بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم کا حجم 19.9 ارب ڈالر یعنی 2070 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ یہ رقم پاکستان آرمی کے جوانوں کی تنخواہوں کے بجٹ سے 6.3 گنا زیادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس رقم کو تنخواہوں کیلئے استعمال کیا جائے تو پاک فوج کے سائز کی چھ افواج کی تنخواہوں کو پورا کرنے کے بعد بھی کچھ رقم بچ جائے۔

دوسرے لفظوں میں اس رقم میں کم ازکم 50 لاکھ افراد کی تنخواہوں کی ادائیگی کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ ترسیلات زر کا محض 2 فیصد ایک لاکھ لوگوں کی سالانہ تنخواہوں کیلئے کافی ہے۔ ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ بنک کے بغیر یعنی دوست احباب یا ذاتی طور پر بھی ملک میں آتا ہے۔ جس کاکم از کم تخمینہ 10 رب ڈالر ہے۔ یعنی مجموعی طور پر کل ترسیلات زر کی رقم 19.9 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ رقم درست طریقے سے استعمال ہو تو کئی ملین افراد کی تنخواہوں کیلئے کافی ہوسکتے ہیں لیکن عملا ہمیں اپنے گردونواح میں ترسیلات زر پر مبنی کوئی معاشی سرگرمی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔

بعض تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ترسیلات زر کے منظرعام سے غائب ہونے کی بڑی وجہ پراپرٹی کا کاروبار ہے۔فرض کریں اگر کسی فرد کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو جسے وہ زراعت میں لگانا چاہے تو اسے کاشتکاری سے لیکر پیداوار کی فروخت تک سیکڑوں ملازمین چاہئے ہونگے، چنانچہ اس کا کاروبار سینکڑوں لوگوں کیلئے روزگار کا وسیلہ بنے گا۔ اگر وہی شخص اس رقم سے پلاٹ خرید لے تو عین ممکن ہے کہ اسے زراعت کی نسبت کہیں زیادہ منافع حاصل ہو، لیکن اس کا یہ منافع کسی ایک فرد کیلئے بھی روزگار کا سبب نہیں بنے گا۔

تاہم پلاٹ میں کی گئی یہ سرمایہ کاری سیکڑوں لوگوں کے روزگار کے مواقع کے قتل کا سبب بن گئی۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ رقوم کی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی بجائے، اسے کسی ایسے کاروبار میں لگایا جائے جس میں روزگار کے موقع بھی دستیاب ہوں، اور ہر سرمایہ کار اپنی پاکٹ بھرتے ہوئے دیگر کئی لوگوں کا معاشی سہارا بھی بنے۔

[pullquote]ترسیلات زر اور پراپرٹی کے کاروبار کی موزونیت :[/pullquote]

پراپرٹی کا کاروبار ترسیلات زر کیلئے بہت کشش رکھتا ہے۔ بیرون ملک مقیم محنت کش اپنے آبائی گاوں یا شہر میں کسی کاروبار کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، اس لئے اسے ایسی سرمایہ کاری بہت مناسب محسوس ہوتی ہے جسے روزمرہ کی بنیاد پر دیکھ بھال کی ضرورت نہ ہو۔ پراپرٹی کے کاروبار میں یہ خوبی موجود ہے، چنانچہ یہ ان کے لئے بیحد پرکشش کاروبار ہے۔ لیکن میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ اس کاروبار کے مضمرات روزگار کے مواقع کیلئے بے حد نقصان دہ ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترسیلات زر بھیجنے والے کو ایسا متبادل دیا جائے جس میں سرمایہ کاری کرنے والے کو محنت نہ کرنی پڑے۔

[pullquote]حکومتی سطح پر ترسیلات زر کا استعمال:[/pullquote]

حکومت کی سطح پر ریمیٹنسز کے بہتر استعمال کی آسان ترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ بنکوں سے قرضہ لینے کی بجائے بانڈز کے ذریعے براہ راست ترسیلات زر بھیجنے والوں سے قرض لے۔ اس وقت بنک جو منافع قرض پر وصول کرتے ہیں، وہ اس منافع سے لگ بھگ 200 فیصد کے قریب ہے جو وہ اپنے کھاتہ داروں کو ادا کرتے ہیں۔ بنک کا مارجن حکومت اور سرمایہ کار آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں، جس میں دونوں فریقوں کا فائدہ ہے۔ دوسری طرف فی الوقت بنک کاروبار کی فائنانسنگ پر بہت کم توجہ دیتے ہیں کیونکہ سیکڑوں ارب روپے ان سے حکومت خود قرض لے لیتی ہے۔

اگر حکومت یہ قرض براہ راست ترسیلات زر سے قرض لے لے تو بنک اس بات پر مجبور ہونگے کہ وہ انفرادی کاروبار کی فانسنگ کریں جس سے روزگار کے مواقع دستیاب ہونگے، جب کہ بنک مارجن کی حکومت اور سرمایہ کار کے درمیان تقسیم سے دونوں فریقین کو جو فائدہ ہوگا وہ الگ ہے۔ اس قسم کے قرض کی واپسی حکومت کو یکمشت نہیں کرنی پڑے گی بلکہ جب بھی کوئی فرد چاہے تو اپنا بانڈ واپس کر کے رقم حاصل کر سکتا ہے، چنانچہ حکومت پر یکمشت ادائیگیوں کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ ترسیلات زر کے اس طرح سے استعمال کا آپشن مرکزی حکومت کے پاس بھی موجود ہے اور صوبائی حکومتوں کے پاس بھی۔

حکومت کے پاس متبادل سرمایہ کاری کا دوسرا آپشن ہے منافع بخش ترقیاتی منصوبوں کیلئے سکوک۔ فرض کریں حکومت کو دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے سرمایہ درکار ہے اور رواں مالی سال میں اس منصوبہ پر تقریبا ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونی ہے۔ حکومت ایک ارب ڈالر کے سکوک جاری کر کے ترسیلات زر بھیجنے والوں سے یہ رقم جمع کر سکتی ہے، ایسے منصوبے پر سرمایہ کار کا منافع پروجیکٹ کی تکمیل سے شروع کیا جاسکتا ہے لیکن سرمایہ کار کے پاس یہ آپشن موجود ہونا چاہئے کہ وہ جب چاہے اپنی کسی بھی ضرورت کیلئے سرمایہ واپس لے سکے،مزید یہ کہ ایسی سرمایہ کاری پر سٹیٹ بنک کی طرف سے یہ گارنٹی ہونی چاہئے کہ کسی بھی نقصان یا ہنگامی آفت کی صورت میں منصوبہ میں لگائی گئی رقم بیل آوٹ کی جائے گی۔ واضح رہے کہ سٹیٹ بنک اس قسم کی گارنٹی تمام بنکوں کو دیتا ہے، اس لئے ایسی گارنٹی کوئی زیادہ اچنبھے کی بات نہیں۔

[pullquote]پرائیویٹ متبادل سرمایہ کاری:

[/pullquote]
پراپرٹی کے کاروبار میں پیسہ لگانے والے افراد کو کو متبادل سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا بہت مشکل تو نہیں تاہم اس کیلئے مناسب منصوبہ بندی، عزم صمیم ، قانونی تحفظ اور انشورنس وغیرہ کی ضرورت ہے۔متبادل سرمایہ کاری سرکاری سطح پر بھی ممکن ہے اور انفرادی یا سوسائٹی کی سطح پر بھی۔ میں درج ذیل میں مختلف امکانات کا تذکرہ کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے ایک بار ان خصوصیات کا تذکرہ جو ترسیلات زر بھیجنے والے کو متبادل سرمایہ کاری کی طرف لانے کیلئے ضروری ہیں۔

فرض کریں ’معاون‘ نام کی کمپنی یہ چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کو استعمال کر کے ایسا کاروبار شروع کرے جس میں وہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع وافر مقدار میں فراہم کرے۔ ’معاون‘ کو مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرنا ہوگا۔

ا۔متبادل سرمایہ کاری ایسی ہو جس میں سرمایہ کار کو انتظامی امور میں مصروف نہ ہونا پڑے، کاروبار سے متعلقہ روزمرہ امور تمام کے تمام معاون کے پاس ہوں۔

۲۔ سرمایہ کار کو اس بات کی سہولت ہو کہ وہ جب چاہے سرمایہ واپس لے سکے۔ اگر کسی نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہو اور اسے کسی ذاتی کام کیلئے ضرورت پڑے تو معاون کے پاس یہ صلاحیت موجود ہو کہ مختصر ترین نوٹس پر اسے سرمایہ واپس کر سکے۔

۳۔ سرمایہ کاری پر محفوظ ہو اور کسی تیسرے فریق کی طرف سے اس کے محفوظ ہونے کی ضمانت ہو۔ یہ ضمانت سٹیٹ بنک کے ساتھ معاہدہ کر کے سٹیٹ بنک کی طرف سے بھی دلوائی جاسکتی ہے اور کسی انشورنس کمپنی کی طرف سے بھی۔

۴۔ سرمایہ کار کو لائف اور ہیلتھ انشورنس معاون کی طرف سے مفت میسر ہو، اوراور اسکی سرمایہ کاری کے متناسب ایک رقم اسکی جاب انشورنس کیلئے متعین ہو۔ اگر کسی ناگزیر حادثہ کی وجہ سے سرمایہ کار جو کہ بیرون ملک مقیم تھا، کو اپنی نوکری ترک کرنی پڑے تو اس شخص کو یہ استحقاق ہو کہ وہ یہ رقم متبادل کاروبار کیلئے حاصل کر سکے۔

حکومت یا افراد یا کوئی گروپ، اگر کوئی بھی شخص اس قسم کی ترغیبات کے ساتھ متبادل سرمایہ کاری کا آپشن مہیا کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بڑی مقدار میں ترسیلات زر کومعاشی سرگرمیوں کے دائرہ میں نہ لاسکے لیکن اگر اس کے ساتھ دو امور کا اضافہ کر لیا جائے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر محب وطن پاکستانی اس بات کو ترجیح دے گا کہ وہ پلاٹس کے کاروبار کی جگہ اس قسم کی سرمایہ کاری کو اختیار کرے۔ وہ دو امور مندرجہ ذیل ہیں۔

۵۔ رئیل اسٹیٹ کے بے محابا کاروبار پر اضافی ٹیکس یا کسی دیگر صورت میں کوئی تنبیہی اقدام

۶۔ قومی سطح پر ترسیلات زر کے درست استعمال کے بارے میں آگاہی مہم

[pullquote] حرف آخر[/pullquote]
انفرادی سطح پر کوئی بھی شخص مندرجہ بالا امور پر توجہ دیتے ہوئے متبادل سرمایہ کاری کا آپشن فراہم کر سکتا ہے تاہم یہ بات سمجھنا بیحد ضروری ہیکہ پراپرٹی کے کاروبار میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری روزگارکے لاکھوں مواقع کے قتل کے مترادف ہے اور اس ظلم کو ہنگامی بنیاد پر روکنا ہوگا۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو اقتصادی راہداری سے بڑا گیم چینجر ہو سکتا ہے ۔

میری رائے میں کوئی بھی مرکزی یا صوبائی حکومت اگر یہ کہتی ہے کہ اس کے پاس ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کی کمی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے یا غلط بیانی۔ ترسیلات زر میں سے اگر صرف قابل سرمایہ کاری رقم کا حساب لگایا جائے تو اقتصادی راہداری کی جو رقم سالانہ پاکستان آنی ہے، اس سے زیادہ رقم بنتی ہے۔

اقتصادی راہداری اسلئے گیم چینجر ہے کہ اس میں شامل منصوبوں کا براہ راست تعلق روزگار اور معاشی سرگرمیوں سے ہے، جب کہ ترسیلات زر اقتصادی راہداری والی سرمایہ کاری سے زیادہ ہو کر بھی گیم چینجر محض اس لئے نہیں اس سے جو ورچوئل سرمایہ کاری ہوتی ہے، اس کا روزگار سے کوئی تعلق نہیں

۔ اگر ہم اپنے جیب میں پڑی رقم کو گیم چینج کرنے کیلئے استعمال نہیں کر سکتے اورقرض لیکر گیم چینج کرنا چاہتے ہیں تو ہم سے بڑا بیوقوف اور کون ہو سکتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے