بھارت کا خونخوار ‘اجتماعی ضمیر’

کوئی تین سو قبل مسیح ہندوستان میں موریا خاندان کی حکومت تھی۔ اس وقت کے راجہ کی اپنے چچا زاد چندر گپت موریا سے دشمنی تھی۔ اس نے چندر گپت کے بھائیوں کو قتل کر دیا ، گپت موریا کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلا ، و ہ گلیوں میں مار ا مارا پھرتا اور اپنے چچا زاد سے بدلا لینے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔

ایک بار اس کا گزر ایک میدان سے ہوا جہاں سرکنڈوں والی گھاس تھی ، اس نے دیکھا کہ ایک شخص شکر گھول کر سرکنڈوں کی جڑوں میں ڈال رہا ہے ۔ وہ کافی دیر غور سے دیکھتا رہا اور پھر اس شخص کے پاس جا کر پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو تو اس شخص نے جواب دیا میں یہاں سے گذر رہا تھا تو ان سرکنڈوں نے مجھے زخمی کیا اور اب میں ان کو جڑ سے اکھاڑ رہا ہوں۔

چندرا گپتا نے کہا کہ تم ان کو آگ لگا دو ختم ہو جائیں گے ۔ اس پراس شخص نے جواب دیا کہ” اگر ان کو آگ لگا دی گئی تو یہ اگلے سال زیادہ اچھے اُگیں گے ۔ میں ان کی جڑوں میں شکر اس لئے ڈال رہا ہوں کہ شکر پر چیونٹیاں آئیں گی اور وہ اس گھاس کو جڑ سے ختم کر دیں گی اور اس جگہ پر دوبارہ کبھی یہ گھاس اس طرح نہیں اگ سکے گی “

چندرا گپتا اس کی کمینگی بھری ذہانت سے بہت خوش ہوا اور اس کو دوست بنا لیا ۔ یہ شخص بھی گپت موریا کے چچازاد سے عداوت رکھتا تھا کیونکہ اس کے چچازاد نے اس کو دربار سے نکال دیا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ شخص گندا اور بدتمیز تھا۔ اس نے اس کے دربار سے نکلتے وقت ایک جملہ بولا تھا ”میں تمہیں تباہ کر دوں گا“

بعد میں چندرا گپتا نے اس شخص کی مدد سے اپنے کزن کی حکومت کا خاتمہ کیا ۔ یہ تھا ہندوستان کا مشہور سیاسی فلاسفر ’چانکیہ ‘ جس نے اپنے لئے خود ’کوٹلیا ‘ نام منتخب کیا تھا ۔ جس کا مطلب ہوتا ہے دھوکے باز ، بعد میں اس نے ایک کتاب ’ارتھ شاستر‘ لکھی ۔

ارتھ شاستر میں اس نے ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے اصول بھی بیان کئے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ ہمسایہ ریاستوں کے اندرونی انتشار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور دشمنی کی آگ کو کبھی کم نہ پڑنے دیں۔ انڈیا کی ساری سیاست آج بھی اس شخص کے اصولوں کی پروردہ ہے۔

انڈیا کی سفارتی رہائش گاہوں والی گلی کا نام بھی ’چانکیہ سٹریٹ‘ ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی اس شخص سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں۔انتقام اور تخریب کاری کی وہ تعلیم جو چانکیہ کوٹلیا نے ہندوستان کو دی ہے وہ اب انڈیا کے عوام تک کی فطرت میں رچ بس گئی ہے۔ انڈیا آج بھی انہی تعلیمات اور انہی اصولوں پر شعوری و لا شعوری طور پر عمل کرتا ہے۔

دیکھا جائے توانڈیا کے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ بھوٹان پوری طرح انڈیا کا دست نگر ہے اور گذشتہ سال نیپال کی سپلائی لائنز بلاک کر کے اس کا ناطقہ بند کیا گیا تھا۔ سری لنکا کے تامل باغیوں کو بھی ہمیشہ انڈیا کی حمایت حاصل رہی ہے ۔

چین سے 1962ءمیں ایک بار مار کھانے کے بعد اب کوئی جارحانہ رویہ اپنانے کی ہمت نہیں بھی پڑتی لیکن چانکیاتی فطرت کہیں نہ کہیں اس کے خلاف بھی انتقام رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان تو روایتی حریف ہے ، بلوچستان ہو یا کراچی جس جگہ بھی کچھ غلط ہو رہا ہو اس میں انڈین ہاتھ کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے۔

یہ تو خیرریاستوں کی بات ہو گئی ۔انڈیا کے عام لوگوں کی بھی اکثریت انسانی خون کی پیاسی ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں لیکن معاملہ جب کشمیر اور کشمیریوں کا ہو تو خون پینے کی یہ ہوس کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

کشمیریوں کے مقبول آزادی پسند رہنما مقبول بٹ کو انڈین سفیر مہاترے کے قتل کے فورا بعد پھانسی دے دی گئی حالانکہ ان کے کیس کی سماعت بھی مکمل نہ ہوئی تھی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ اس پھانسی کا مقصد ’اجتماعی ضمیر ‘ کو مطمئن کرنا ہے۔

ایک اور کشمیری ڈاکٹر افضل گورو جو 2001 ءمیں پارلیمنٹ پر کئے گئے حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار تھے ۔ ان کو 2013 ءمیں ناکافی شواہد ہونے کے باوجود پھانسی دے دی گئی اور اس دفعہ بھی یہ ”عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے“ کے لئے تھا۔

انڈیا کی اس پیاس نے انصاف کی دھجیاں2015ءمیں ایک بار پھر اڑائیں جب یعقوب میمن کو ناکافی شواہد کے باوجود پھانسی دے دی گئی حالانکہ یعقوب میمن عرصہ دراز سے مفرور تھے ، انہوں نے بالآخر رضاکارانہ گرفتاری دی تھی اور خود کو مقدمہ کے لئے پیش کیا تھا ، لیکن وہ بھی ضمیر کے ہتھے چڑھ گئے

مہذب یا غیر مہذب ، ہر معاشرے میں سزا دوسروں کو عبرت دلوانے کے لئے ہوتی ہے ، لیکن ہندوستان میں یہ سزائیں ’اجتماعی ضمیر‘ نامی چیز کو مطمئن کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔

اسی سرانڈ زدہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے حال ہیں میں انڈیا نے انتہائی بھونڈا ڈرامہ ”سرجیکل سٹرائکس “ کے نام سے رچایا۔ لائن آف کنٹرول(جو کشمیریوں کے ہاں سیز فائر لائن ہی سمجھی جاتی ہے) پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شور مچایا گیا کہ انڈیا نے سرجیکل سٹرائک کیا ہے ۔

سرجیکل سٹرائیکس میں مخصوص گروہ یا فرد یا فوجی تنصیب کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو دوسرے ملک کے لئے خطرہ ہو ۔

اگر غیر حربی ( combatant non ) عوام کو ، یا سرحدوں پر معمول کے مطابق کھڑے فوجیوں کو دور سے بے تحاشا فائرنگ کرکے ختم کرنا سرجیکل سٹرائیک ہے تو ہم وادی نیلم کے باسی یہ سرجیکل سٹرائیک 1990ءسے 2003ءتک مسلسل دیکھتے رہے ہیں اور اس کے بعد بھی انڈیا کا جب دل چاہتا ہے وہ اس طرح کے سرجیکل سٹرائیکس کرتا رہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خون کی یہ پیاس کب ختم ہو گی؟ جو آگ پڑوسیوں کے گھروں میں لگائی جاتی ہے اس کے شعلے کیا ا پنے گھر تک نہیں پہنچیں گے ۔۔۔؟ میرے خیال میںپہنچ چکے ہیں۔ انڈیا کے ساٹھ فیصد علاقے میں چھوٹی بڑی ایک سو سے زائد ’انسرجنٹ موومنٹس ‘ چل رہی ہیں۔

انڈیا بڑی طاقت سہی لیکن کیا وہ اتنی بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا کر سکے گا؟ اور عالمی سطح پر پاکستا ن کو تنہا کرنے کی خوشی میں کہیں وہ خود بھی تو تنہا نہیں ہو جائے گا ، ”بُرکس سمٹ“ میں وہ ویسے بھی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا نام نہیں لے سکا۔

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان ہندو ﺅں کی تنگ نظری اور تعصب نے بنایا ہے اورتقسیم ہند کے بعد کے حقائق ان کے اس بیان کی پوری طرح تائید کرتے ہیں۔

انڈیا کی یہ روش جہاں کشمیریوں کی ایک نسل کے لئے بے پایاں درد کا باعث ہے وہیں صبح نو کا پیام بھی ہے ۔ ہندوستانی حکومت اور عسکری اشرافیہ کی یہی فطرت کشمیر یوں کو آزادی کے مزید قریب کر رہی ہے ۔

بہت سے لوگ مودی کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ ان کی پالیسی نے کشمیریوں کو ایک بار پھر متحد کر دیا ہے اور یہی اتحاد ان شا اللہ آزادی بھی دلوائے گا اورانہیں ہندوستان کی حکومت کے گھڑے ہوئے نام نہاد”اجتماعی ضمیر“ کی پیاس سے بچا سکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے