جرنلزم، ایکٹوازم اور سپاہی کا تھپڑ

اس طرح تو محلے کی ماسیاں بھی نہیں کرتیں جس طرح یہ محترمہ جرنلزم کررہی ہیں ۔یہ انتہائی افسوس ناک رویہ ہے ۔

آپ نے اگر ویڈیو نہیں دیکھی تو یہاں دیکھی جا سکتی ہے.

https://youtu.be/d-dxYuk7nQI

چینل مالکان جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے کے اصول پر جرنلزم نہیں بلکہ دھندے بازی میں مصروف ہیں ۔

موصوفہ جن کا نام صائمہ کنول بتایا جاتا ہے، کراچی 21 نامی چینل پر کراچی کی آواز کے نام سے پروگرام کرتی ہیں .اس پروگرام کا موضوع بہت اچھا اور وہ ایک اہم مسئلہ کی جانب نشاندہی کر رہی تھیں.

موصوفہ کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے یہ عورتوں کی بے عزتی کر رہا تھا جس کی وجہ سے انہیں غصہ آ گیا ۔ جس وقت انہیں غصہ آیا ، اس وقت وہ صحافی نہیں بلکہ فریق بن گئیں ۔

انہوں نے اپنی فیس بک وال پر اپنے دفاع میں لکھا کہ

"وہ حلال زادی ہیں ، ماوں بہنوں کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتی ”

میری ان محترمہ سے گذارش ہے کہ کشمیر و فلسطین نکل جائیں، ونی ، سوارا ، کارو کاری ، جبری تبدیلی مذہب ، کم عمری اور جبری شادیوں کے مسئلے پر آواز اٹھائیں ۔

اس موضوع پر ایک تنظیم بنا ئیں اور تحریک شروع کریں ۔ میں بھی آپ کا ساتھ دوں گا لیکن جو کچھ آپ کر رہی ہیں یہ ایکٹوازم تو ہے جرنلزم نہیں ۔

انہیں چاہیے تھا کہ وہ عورتوں کی بے عزتی کرنے کا منظر ریکارڈ کر کے اپنے چینل پر دکھاتیں، اس بندے کا موقف لینے کی کوشش کرتیں ، اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو اس کی فوٹیج بنا تیں ۔ جن عورتوں سے بدتمیزی کی ان کا موقف لیتیں اور نشر کر دیتیں ۔

موصوفہ ایکٹر نما اینکرکی غصے سے لرزتی آواز، ان کا اشتعال پیدا کرنے والا انداز ، ان کا سپاہی کی وردی کھینچنا ، اس پر ہاتھ اور مائیک سے حملہ آور ہوجانا صحافت نہیں ، ان کی ذاتی لڑائی بن چکا ہے ۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں ، بالکل ٹھیک کہا لیکن یہ عورت سپاہی کی وردی پر ہاتھ اٹھانے کے بعد صحافت اور احترام کا حق کھو چکی تھیں ۔ ہاتھ اٹھاو گے تو ہاتھ اٹھایا جائے گا ۔

تاہم دو غلط مل کر ایک ٹھیک نہیں ہو سکتے ۔ لیکن یہاں اس عورت نے چار غلطیاں کیں ۔

جرنلزم کے بجائے ایکٹوازم شروع کر دیا ۔

ایکٹوازم کے بعد مدعی بن گئی ۔

مدعی بننے کے بعد جج بن کر فیصلہ کر دیا ۔

جج بننے کے بعد سزا دینے کیلئے انتظامیہ بن گئی ۔

پھر ایک تھپڑ کھا کر مظلوم بن گئی ۔

جو لوگ اس خاتون اینکر کو سپورٹ کر رہے ہیں ، انہیں جرنلزم کا ککھ پتا نہیں ، وہ بھی چھاتہ برادار ہوں گے ۔ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانے کی میں مذمت کرتا ہوں لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ سپاہی غریب ہے ، ملازم ہے ، اپنی مزدوری کر رہا ہے ، جو حکم ہے اسے پورا کر رہا ہے ، ان پڑھ ہے لیکن دوسری جانب پڑھی لکھی ، قوم کی اصلاح کرنے والی ، ایران توران سے لیکر کاغان ناران تک پر موضوع مملکت کی سرخیل کھڑی ہے ۔ بات مذمت کی ہوگی تو پہلی مذمت اینکر کی اور پھر دور کہیں جا کر سپاہی کی ہوگی ۔

فلیڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کیلئے یہ نام نہاد ایکٹرز نما اینکرز آئے روز مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔ یہ بندر کے ہاتھ میں استرے والی بات ہے ۔ اس موقع پر صحافتی حقوق کی تنظیموں کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہوتا ہے کہ وہ غلط کو غلط کہنے کے بجائے برادری کے ساتھ کھڑے ہونا شروع کر دیتے ہیں ۔ میں اس برادری ازم سے بری ہوں ۔ جو غلط ہے ، وہ غلط ہے ۔ چاہے میرے والد محترم کریں ، میرا بھائی کرے ، میرا دوست کرے یا میری اولاد کرے ۔ صرف یہ رویہ ہی ہمیں ایک اچھا شہری بنا سکتا ہے اور ہم ایک اس رویے سے ایک اچھا معاشرہ تخلیق کر سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے