روپے کی قدر میں تبدیلی اور اس کے معاشی اثرات

کچھ عالمی مالیاتی ادارے عرصہ سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں تبدیلی کی جائے۔ فی الوقت ایک ڈالر تقریبا 105 روپے میں دستیاب ہے، جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کا خیال یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت 122 روپے کے لگ بھگ ہونی چاہئے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ جب کوئی کام کروانا چاہتے ہیں تو اسے بڑا پر کشش بنا کر پیش کرتے ہیں اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی میں قوم کا بھلا ہے۔ ان کی حمایت میں دانشوروں کی ایک پوری ٹیم سرگرداں ہے۔مجھے حیرت ہے ان پاکستانی دانشوروں پر جوتصویر کا آدھا رخ دیکھ کرکس طرح قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے فیصلے اتنی آسانی سے کر لیتے ہیں۔

معاشیات کی کتابوں میں کرنسی کی شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کو ہمیشہ تجارت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، اور یہ پڑھایا جاتا ہے کہ کرنسی کی قدر میں آپکی تجارت کو فائدہ پہنچائے گی۔ یہ بات اپنی جگہ محل نظر ہے کہ کہ کیا واقعی کرنسی کی قدر میں کمی سے تجارت کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں، کیونکہ تجارت میں فائدہ کیلئے کچھ مخصوص شرائط درکار ہیں۔ لیکن یہ بات سو فیصد طے شدہ ہے، کرنسی کی قدر میں کمی سے بیرونی قرض کا بوجھ بے تحاشا بڑھ جائے گا۔
فرض کریں میں نے ایک امریکی سے 1000 ڈالرادھار لے رکھا ہے، اگر ڈالر کی قیمت سو روپے ہوگی تو مجھے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہو گی، اگر ڈالر کی قیمت 125 ہو جاتی ہے تو مجھے ایک لاکھ 25 ہزار ادا کرنا ہوگا۔ میرے اوپر 25000 کا قرض اضافی بڑھ جائے گا، جو کہ میں نے کبھی ادھارلیا ہی نہیں۔
میری تمام ان اقتصادی ماہرین سے جو برآمدات میں بہتری کی خاطر روپے کی قدر میں کمی کی سفارش لئے بیٹھے ہیں سے گذارش ہے، تمہارے تخمینے اور حساب بالکل درست، مان لیا تمہاری تجویز سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو جائے گا، لیکن کیا تمہارے تخمینوں میں اس اضافی قرض کا حساب بھی شامل ہے جو اس قوم کے کندھوں پر پڑنے والا ہے؟ اگر نہیں ہے تو برائے مہربانی اپنے ان تخمینوں کو سنبھال کر رکھیں۔ تعجب کی بات یہ ہیکہ میں نے گوگل چھان مارا، مجھے دو یا تین پیپرز کے علاوہ کوئی ایسی ریسرچ نہیں ملی جس میں کرنسی کی قدر کے اثرات میں قرض کو بھی خاطر میں لایا گیا ہو۔ جبکہ قرض اور کرنسی کی شرح تبادلہ کا تعلق ہمیشہ یقینی اورغیر مبہم ہوتا ہے۔

اب پاکستان کے قرضوں کی طرف آئیے، اس وقت پاکستان کے بیرونی قرضے 73 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اگر ایک ڈالر 105 روپے کا ہو تو اس قرض کی مجموعی قیمت پاکستانی کرنسی میں 7665 ارب بنے گی اور اگر روپے کی قدر 122 ہو جائے تو قرض کی رقم 8906 ارب بن جائے گی۔ ان دونوں میں فرق ’’صرف‘‘ 1241 ارب روپے کا ہے۔یعنی پاکستان کے قرضے کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث 1241 ارب روپے بڑھ جائیں گے اور ہر پاکستانی کے حصے میں6200 روپے اضافی قرض آئے گا۔

اب فرض کریں کرنسی کی قدر میں کمی سے تجارت میں فائدہ ہوتا ہے، تب بھی یہ فائدہ اسی وقت بامعنی ہوگا جب یہ اس اضافی قرض سے بڑا ہو جو روپے کی قدر میں کمی سے ملکی قرضوں میں شامل ہوا۔ اگر ایسا نہ ہو تو روپے کی قدر میں کمی سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔مزید فرض کریں واقعی تجارت میں فائدہ اضافی قرض کی رقم سے بڑھ جاتا ہے اور ہماری مجموعی تجارت میں اضافہ 1240 ارب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تب بھی یہ اقدام قابل اعتراض ہی ہوگا کیونکہ قرض کی رقم بڑھنے کا بوجھ ساری قوم نے برداشت کرنا ہے، جبکہ تجارت میں اضافہ کا فائدہ صرف ایکسپورٹر کو ہو گا، تو کیا ایکسپورٹر کے فائدہ کی خاطر پوری قوم کو اضافی قرض کے چنگل میں جکڑ لینا مناسب ہوگا؟

ہمارے دانشور دنیا کی واحد قوم ہیں، جو اس بات کے منصوبے بنا رہے ہیں کہ ہم نے اربوں ڈالر کا اضافی ایندھن خریدنا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ کرنسی کی قدر میں کمی کرو تاکہ ایک بیرل تیل 5200 روپے کی بجائے 6100 میں دستیاب ہو۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے پیکیج میں 6000 میگا واٹ کے منصوبے ایسے ہیں جن کیلئے درامد شدہ ایندھن استعمال ہونا ہے، اگر ہم نے خود سے ڈالر کو مہنگا کر لیا تو یہ ایندھن ہمیں فی ڈالر 15 روپے مہنگا پڑے گا جس کا بوجھ پوری قوم کو برداشت کرنا ہوگا۔ کتنا دانشمندی کا فیصلہ ہم کرنے جارہے ہیں!!!

ایک سیمینار میں مجھے ایسی ہی ایک دانش بھری تقریر سننے کا موقع ملا، جہاں مقرر صاحب یہ فرما رہے تھے کہ پاکستان کیلئے منصفانہ ایکسچینج ریٹ 122 ہے اور اگر ہم نے موجودہ ریٹ برقرار رکھا تو ہماری برآمدات کا مزید بیڑا غرق ہو جائے گا۔ مجھے اس چیز سے شدید اختلاف ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے برامدات میں اضافہ ہوگا لیکن چند لمحوں کیلئے مان لیتے ہیں، ایکسچینج ریٹ میں تبدیلی سے برامدات 50 فیصد بڑھ جائیں گی۔ کیا برآمدات میں 50 فیصد کا یہ اضافہ اس اضافی قرض کو بیلنس کرے گا جو روپے کی قدر میں کمی سے ہم پر لاگو ہوجائے گا؟

جب اس بات پر میری ان سے لے دے ہوئی تو آخرکار دانشور صاحب فرمانے لگے میرا یہ مطلب نہیں کہ روپے کی قدر میں کمی کی جائے بلکہ حکومت اور سٹیٹ بنک مل کر مہنگائی کم کریں اور ڈالر کے ذخائر کو اس طرح سے درست کریں کہ ’’منصفانہ‘‘ ایکسچینج ریٹ اور موجودہ ایکسچینج ریٹ میں فرق کم ہو۔ یہ دراصل دانشور صاحب جو کہ میرے مہربان دوست اور سابق کلاس فیلو ہیں ان کا تکلف اور مروت تھی کہ انہوں نے دل کی بات کو جبرا مروڑ کر ایسے اقدامات کا تذکرہ کیا جو بظاہر غیر نقصان دہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح اس وقت جو ہے اس میں مزید کمی تقریبا ناممکن ہے۔ تیل کی قیمتیں پچھلے دو سال سے مستحکم ہیں۔ اشیائے خوردنی میں سے بہت سی چیزوں کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ اس لئے جس منصفانہ ایکسچینج ریٹ کی بات موصوف فرمارہے تھے اس حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے روپے کی قدر میں کمی ۔ جس کے اثرات میں سے بعض کا تذکرہ میں کر چکا ہوں۔

دراصل ایکسچینج ریٹ کے تعین میں بنیادی کردار تجارت ہی کا ہوا کرتا تھا اور اگر تجارت کی بنیاد پر آج کا ایکسچینج ریٹ طے ہو تو 200 روپے فی ڈالر سے بھی اوپر چلا جائے کیونکہ ہماری درآمدات ہماری برامدات کے دگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں بڑی مقدار میں ترسیلات زر کا بہاؤ جاری ہے۔ ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھنے میں بنیادی کردار ترسیلات زر کا ہے۔رئیل ایکسچینج ریٹ کے تخمینے اس لئے بہت اونچے ہیں کہ ان تخمینوں میں ترسیلات زر کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ ہمیں کسی اقتصادی بحران سے ڈرنے کی ضرورت اس لئے نہیں ہیکہ ترسیلات زر اس ملک کی اقتصاد کو بچانے کیلئے موجود ہیں، جو اگر نہ ہوں تو حالات اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہوں جتنے آج ہیں۔

میں اپنی تحریر میں جس سیمینار کا تذکرہ کر رہا ہوں وہ ایک ایسے ادارہ نے منعقد کروایا جس کی اعلی حکومتی اداروں تک بڑی رسائی ہے، اس لئے ان کی یہ تجویز ایک عمومی ریسرچ نہیں ایک منصوبہ جس پر حکومت کو رفتہ رفتہ قائل کیا جارہا ہے۔ لیکن کیا دانش ہے کہ ہم اپنے اوپر قرض کو بوجھ کو بڑھا کر اپنی آنے والی نسلوں کیلئے قرض کے انبار لگا کر چلے جائیں۔ بظاہر یہ تاثر دیا جا رہا ہیکہ اس اقدام سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہو گا جبکہ حقیقت یہ ہیکہ ایکسپورٹرز کا مسئلہ ایکسچینج ریٹ تو ہے ہی، نہیں۔ ان کا مسئلہ اس ملک کی معیشت کے بارے میں خریداروں کے تاثرات ہیں، اورخریداروں کیلئے سب سے برا سگنل روپے کی قدر میں کمی ہوگی، جسے وہ ملکی معیشت میں ابتری سے تعبیر کریں گے۔

میرے خیال میں عوام اتنی باشعور ضرور ہیکہ وہ یہ سمجھ سکے کہ اگر ڈالر 105 سے 122 ہو جائے تو قرض کتنا بڑھ جائے گا۔ جو دانشور آپ کو یہ سمجھائے کہ اس سے تجارت میں فائدہ ہے، اس سے یہ پوچھیں کہ کیا تجارتی فائدہ اس نقصان کا متبادل ہے جو قرض کی شکل میں قوم پر آن پڑے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے