ترقی؟

انسان کی ترقی یہ ھے کہ فرش سے عرش کی طرف جائے مسلسل بلندی کی طرف سفر کرے ھم جب ترقی کی بات کرتے یا سننتے ھیں تو ھمارے ذھن میں مادی ترقی کا تصور آجاتا ھے ایک مفلس انسان جب دولت کمانا شروع کرے اس کے پاس گاڑی،پیسہ،خوبصورت رھائش اور قسم قسم کے انواع و اقسام کے کھانے آجائیں نوکر چاکر ھو تو کہا جاتا ھے کہ اس نے بھت ترقی کرلی کتنی دولت کمائی،عیش کی زندگی گزار رھا ھے،جب ایک شہر پسماندہ ھو جگہ جگہ گٹر ابل رھے ھوں،سڑکوں کا نام نشان نہ ھو،پینے کا پانی اور صحت کے بے شمار مسائل ھوں اور جب اس شہر میں سڑکوں کا جال بچھے۔بڑی بڑی عمارتیں بننا شروع ھوں،انڈسٹریز لگیں تو عموما” یہی سمجھا جاتا کہ شہر ترقی کررھا ھے یورپ میں فرد کتنا خوشحال ھے دیکھنے میں یورپ کی سماجی زندگی کتنی خوبصورت نظر آتی ھے اور ھم سب کہتے ھیں کہ یورپ ترقی یافتہ ھے۔

لیکن اصل ترقی روح کا ترقی یافتہ ھونا ھے لگژری طرز زندگی کسی فرد کی ھو یا کسی قوم کی وہ جسم کی ترقی ھوتی ھے،کسی فردیا قوم کا جسم ترقی یافتہ ھو اور اس کی روح پسماندہ رھے تو اسے ترقی کہنا درست نہ ھوگا،اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ھے سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی فلسفہ دولت کا حصول(مادی ترقی) ھے۔جب جسمانی ترقی کو نصب العین بنایاگیا تو دولت کی ایک دوڑ شروع ھوگئی حرص زر کی دوڑ نے سب سے پہلے اخلاقی قدروں(ویلیوز) کو تہہ تیغ کیا اور ھر ایک دوسرے سے بازی لینے کی کوشش میں لگا رھا اسی سوچ نے طاقتور اقوام کو توسیعی پسندانہ اقدامات پر اکسایا بڑے ملکوں نے طاقت کے بل بوتے پر کمزور ملکوں پر قبضہ کیا ان کے وسائل لوٹے ان کی معدنیات سے اپنے محلوں کے چراغ روشن کئے برطانیہ فرانس جاپان اور دیگرممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں کہ انھوں نے کس طرح کمزور قوموں اور ملکوں پر قبضہ کیا اور ان کے وسائل بے دردی سے لوٹے،مادی ترقی کی یہ سوچ آج اپنے جوبن پر ھے البتہ فرق یہ ھے کہ ماضی میں عسکری طاقت سے قبضہ گیری ھوتی رھی اب سیاسی اور معاشی بنیادوں پر توسیع پسندانہ ذھنیت کی تسکین ھورھی ھے.

سوال یہ ھے کہ کیا کسی فرد قوم یا کسی ملک کا خوشحال ھونا غلط ھے؟کیا کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ھے کہ وہ امیر ھو،اچھے گھر میں رھے،اچھے کپڑے پہنے،اس کے پاس بھتر سواری ھو کیا دولت مند بننا ناپسندیدہ عمل ھے؟؟؟ھمارے پاس اسلام کا ماڈل ھے اسلام کی جتنی بھی تعلیمات ھیں وہ فطرت کے عین مطابق ھیں خوشحال زندگی کی خواھش ھر انسان کی فطری خواھش ھے اگر اسلام میں دولت کمانے کو نا پسندیدہ قرار دیا جاتا تو اس کا مطلب اسلام کی تعلیمات فطرت سے متصادم ھوتے،لیکن اسلام نے دولت کمانے کے جو اصول بتائے ھیں انہیں فالو کرنا ضروری ھے کوئی شخص ایک لاکھ کمائے یا ایک ارب اسلام میں اسکی کوئی ممانعت نہیں ھےاسلام اس بات سے منع کرتا ھے کہ دولت کماتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ کسی دوسرے فرد کے حقوق متاثر نہ ھوں یہیں سے ھمیں مادی اور روحانی ترقی کا فرق سمجھ میں آجاتا ھے۔کمزور قوموں کے وسائل کی لوٹ مار سے اپنے شہروں کو روشن کرنا،کرپشن کرنا ٹیکس نہ دینا دھوکہ دھی کرنا بلیک منی بنانا ناجائز کمیشن کھانا سڑکوں پلوں اور عمارتوں کی تعمیرات کے میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال سے پیسہ بچانا وغیرہ وغیرہ ایسے ذرائع ھیں جن سے مادی ترقی کی راھیں تو کھلتی ھیں لیکن روحانی ترقی کا سفر رک جاتا ھے۔

مادی ترقی میں عمارتیں بلند اور کردار پست ھوتے ھیں جبکہ روحانی ترقی میں کردار بلند ھوتا ھے عمارتیں پست ھوں یا بلند موضوع بحث نہیں،مادی ترقی سے قبل روحانی ترقی لازمی ھے وگرنہ بحیثیت قوم یا بحیثیت فرد روحانی ترقی سے قبل مادی ترقی کی دوڑ میں شامل ھوگئے تو شہروں کے نام پر جگمگاتے قبرستان آباد ھونگے اور اس میں آپ کو مشینی انسان تو ملیں گے لیکن وھاں کوئی زندہ انسان نظر نہیں آئیگا اور ھم اس صورتحال سے دوچار ھیں آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو کتنے لوگ ملیں گے جو بغپر کسی مظلب کے آپ کے ساتھ تعلق قائم کرتے ھیں؟،مادیت کا اس قدر غلبہ ھے کہ سیلزمین آپ سے اس لئے مسکرا کر بات کرتا ھے کہ آپ اس کا سامان خریدیں جس معاشرے کی مسکراھٹ کمرشل ھوجائے تو کیا اسے ترقی یافتہ معاشرہ کہا جاسکتا ھے؟

اسلام کے معاشی نظام اور سوشلزم کی خوبصورتی یہ ھے کہ وہ ارتکاز دولت کو پسند نہیں کرتے بلکہ انکی تعلیمات میں قانون سازی کے ایسے پہلو موجود ھیں جو ارتکاز دولت کو روکتے ھیں اسلام کا نظام زکوٰۃ صدقات خیرات اور سوشلزم کا نجی ملکیت کے خاتمے کا تصور (اگرچہ نجی ملکیت کا کامل تصور قابل بحث ھے اور بعض حلقے اسے خلاف فطرت تصور خیال کرتے ھیں یہ الگ بحث ھے جس پر سوشلزم کی تمام باریکیوں کو سمجھنے والے بہتر روشنی ڈال سکتے ھیں)ارتکاز دولت کو روکتے ھیں
دنیا کو اس بات کا ادراک ھے کہ بقائے عالم کا تقاضا یہ ھے کہ کامیابی کیلئے کسی ایسے نظام کا ارتقاء ضروری ھے جو گروھی مفادات سے زیادہ انسانی مفادات کو مقدم رکھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں طبقاتی خلیج بڑھتی جارہی ھے دنیا بھر کی ترقی اس وقت خوبصورتی کے سانچے میں ڈھل سکتی ھے جب اس میں بقائے انسانیت کو مرکزی خیال کے طور پر شامل کیا جائے بقائے انسانیت ایک بالاتر سوچ کا نام ھے جو نہ صرف مذاھب بلکہ زبان جغرافیہ تہذیب و تمدن سب سے بالاتر ھو انسانوں کی انتظامی تقسیم نقصان دہ نہیں خود اسلام نے انسان کو مختلف قومیتوں اور قبائل میں تقسیم کرکے انکی شناخت کی ھے تاکہ انکی انتظامی تقسیم ھو لیکن اس انتظامی تقسیم کے معنی یہ نہیں کہ اس تقسیم کی آڑ میں وہ قابل نفرت بن جائے اس وقت قومی جغرافیائی اور نظریاتی تقسیم نے نفرت کے جو بیج بوئے ھیں روحانی ترقی کیلئے ان کا خاتمہ ضروری ھے فاشزم قومی ھو مذھبی ھو یا جغرافیائی یہ ایک فکری ناسور ھے جس کی موجودگی میں روحانی ترقی کا سفر مکمل نہیں ھوتا کیونکہ اس صورت میں ھر قوم اور مذھب کے پیروکاروں کی خواھش ھوتی ھے کہ دنیا بھر کے وسائل صرف اسکی قوم یا مذھبی پیروکاروں کے حق میں استعمال کیا جاسکے اس وقت جو طاقتیں دنیا کو کنٹرول کررھی ھیں انہیں جلد یا بدیر یہ ادراک کرنا ضروری ھے کہ انسانیت کو صرف مادیت کی بنیاد پر کھڑا کرنا ممکن نہیں ھے بلکہ ضروری ھے کہ دنیا بھر کے انسانوں کیلئے ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں روحانیت ھی مرکزی نقطہ قرار ہائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے