بے روزگار نوجوانان وطن

بے روزگاری ہمار ے ملک کے بڑے مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ ہے اگر چہ آج کل یورپین ممالک پر بھی یہ مسئلہ اثرانداز ہورہا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں دہشت گردی کے خلاف عرصے سے جاری جنگ، انڈسٹری کی کمی اور لیڈران کی عدم توجہ سے یہ مسئلہ روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے ۔ ملک میں موجود کالجز اور یونیورسٹیوں سے ہر سال ڈگری لینے والے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فوجیں اس معاشرے پر بوجھ بنتی جا رہی ہے۔قوم کے رہنما اپس میں اقتدار کی رسہ کشی اور کرسی کرسی کے کھیل میں لگے ہوے ہیں جبکہ قوم کے قیمتی سرمائے سے تعمیری کام لینے کے بجائے ان کودربدر کی ٹھوکریں اور دھکے کھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف معمولی لکھے پڑھے لوگ ایوانوں میں بیٹھ کر ان تعلیم یافتہ ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوانوں اور بیس کروڑ عوام کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ ماں باپ دن رات ایک کرکے محنت مزدوری کے پیسوں سے بچا کر بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں تا کہ کل ان کے اولاد کو باعزت روزگار مل جائے گی اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بن جائے۔ مگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ خواب چکنا چور ہوجاتا ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے قوم کے غمخواروں کو اتنی توفیق نہیں ملتی کہ ان نوجوانوں کے لئے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالے ۔ ملک کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں انڈرسٹریل زون قائم کرنے کی منظوری دے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے روزگاراور ملازمتوں کے دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ اس میں وہ نوجوان شامل نہیں جو مذہبی تعلیمی اداروں میں تعلیم مکمل کرتے ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔جبکہ پاکستان افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔ جبکہ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والے اکثریت نوجوان غیر یقینی صورت حال کا شکار رہتے ہیں ۔ یا تو ان کو من پسند جاب ملتی ہی نہیں یا اگر کوئی جاب ملے بھی تو وہ ان کی ڈگری اور ان کی سوچ سے موافقت نہیں رکھتی۔

اس سے زیادہ گھمبیر مسئلہ ان نوجوانوں کا ہے جو دور دراز علاقوں اور دیہات سے اپنی غریب والدین کی جمع پونجی سمیت اکر شہروں میں حصول تعلیم کے غرض سے آتے ہیں ۔ مگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو بہتر مستقبل کی کوئی راستہ نہیں دکھائی جاتی ۔ اور محض ایک کاغذ کی ڈگری ان کے ہاتھوں میں تھما کر معاشرے کے بھیڑ میں جھونک دیتے ہے۔

اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حکومت کی کارکردگی پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ محض تعلیم اور رٹے رٹائے اسباق سے نوجوانوں کو پاس کرکے اور ان کو ڈگری دے کر حکومت کا فرض پورا نہیں ہوتا۔بلکہ جب ہم مارکیٹ میں کسی سے پوچھتے ہیں توااکثر یہی سننے میں اتا ہے کہ کالج ، یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے والے با ہر کے کام کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔ اس وجہ سے ان کو کام نہیں دیا جاتا۔جبکہ پرایؤٹ کمپنیوں اور حکومتی اداروں میں پہلے تو ملازمت ملنا مشکل ہوتا ہے اور اگر کچھ پوسٹ خالی بھی ہو تو اس کے لئے کئی کئی سال کا تجربہ ہونا لازمی قرار دیتے ہیں۔ اس حالت کو دیکھ کر کیا کہا جائے ؟ نوجوان کہا جائے ؟ کس کو فریاد سنائے؟ اس طرح کی حالات نوجوانوں کو سسٹم کا باغی بنا دیتا ہے۔وہ تشدد اور جذباتی بن کر منفی سرگرمیوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔جہاں وہ غیرقانونی شارٹ کٹس کو اپنانے کی کوشش شروع کردیتے ہیں ۔ ناجائز ذریعے اور حلال و حرام کی تمیز سے بے خبر ہوکر اپنی خوابوں کی تکمیل پر امادہ ہوجاتے ہیں ۔ پیسوں کے لئے قتل ، اغواء ، ڈکیتی اور ہر قسم دھوکہ دہی کی طرف ان کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔جس کا نقصان اس کی ذات کے علاوہ اس ملک اور معاشرے کو ہی ہوگا۔

صرف 2014 سے2015 تک بے روزگاری کی شرح 5 سے 8 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں ان پڑھ بے روزگاروں سے پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

اب بھی وقت ہے اگر پائیدار طریقے سے ملک کے اندر بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے تو ملک کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور ان نوجوانوں کے علاوہ ان کے خاندان بھی سکھ کا سانس لے لیں گے۔ حکمران بھی باہمی جھگڑوں کو چھوڑ کر ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے منصوبوں پر زور دے ۔اور قوم کے اس عظیم سرمائے کو ان کی خوابوں کی صحیح تعبیر سے روشناس کرائے ۔ کہی ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے اور پھر کوئی حل نہ ہو ۔حالانکہ اب بھی کافی دیر ہوچکی ہے ۔اور ہمیں سدھرنا چاہیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے