ہم خود کو ایک نڈر صحافی تصور کرتے ہیںیہ الگ بات ہے کہ نڈر صحافی کا ایوارڈ ملنے کا معیار ایوارڈ دینے والے کے اپنے صوابدیدی کوٹے اور ایجنڈے پرمبنی ہوتا ہے۔کل ہماری ملاقات پپو بھائی سے ہوئی، موصوف پیشہ ور صحافی اور ہر متنازعہ معاملے میں قلم کاری کرنے کو فرض عین سمجھتے ہیں۔خیر خیریت دریافت کرنے پرانتہائی برہمی سے بولے مجھ سے زیادہ نڈر صحافی پوری مارکیٹ میں نہیں ملے گا۔ ہم نے اس فرنڈلی فائر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ پپو بھائی نڈر صحافی بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تشدد، گولی اور کبھی کبھی تومرنا بھی پڑتا ہے اور آپ نے تو اس مد میں ایک تھپڑی بھی نہیں کھائی۔
ہماری اس جرات پر پپو بھائی نے کپتان کی طرح ہاتھ نچاتے ہوئے کہا اوئے اپنا منہ بند کرو، تم کو کیا پتہ میں تو بچپن سے ہی شدید نڈر صحافی ہوں۔ میرا بچپن جس گھر میں گزرا اس میں ہمارا ور چچا کا گھرانا آباد تھا۔ چچا عاشق مزاج ہونے کے باعث اپنی بیگم کی بے جا فرمائشیں پوری کرتے رہتے تھے۔ ایک دن چچا ،ابا سے بولے گھر میں میرا حصہ الگ کردو۔ ابا نے ساتھ رہنے کے فوائد گنوائے لیکن چچا نہیں مانے ۔ ہم نے بھی نڈر صحافی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کھل کر گھر تقسیم کرنے کی حمایت کی۔ ابا نے پہلے تو سخت مزاحمت کی مگر پھر ہمارے صحافیانہ اور چچا کے باغیانہ دباؤ میں اکر چچا کو آزادی دے دی جس کی خوشی میں چچا نے کئی سال بعد ہماری خدمات پر ہمیں آزادی ایوارڈ سے بھی نوازا، مانتا ہے، پپو بھائی نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے ہمیں دیکھا اور ترنگ میں گنگنانے لگے
"دشت تودشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
اپنے ہی گھر کے ادھیڑ دیے، بخیے ہم نے”
ہم ابھی اسی کنفیوزن میں تھے کہ اپنا گھر تقسیم کرنے میں کیا بہادری تھی کہ پپو بھائی بولے، بیٹا نڈر صحافی وہ نہیں ہوتا جو سچ بولے ، نڈر صحافی وہ ہوتا جو "خاص”سچ بولے۔ اسی بات پر”چل بیٹا سیلفی لے لے رے”پپو بھائی پھر پٹری سے اتر گئے تھے۔ خیر جلد ہی گویا ہوئے کہ چچا والے واقعے کے بعد مجھے اچھی طرح سمجھ اگیا تھا کہ دنیا مجھے نڈر صحافی تب ہی مانے جب میں ابا کی بینڈ بجاؤں گا۔ بس پیارے وہ دن ہے اور آج کا دن، گھر میں کچھ ہوجائے میں گھوما پھرا کر سیدھا الزام ابا پر رکھ دیتا ہوں۔ گھر میں جب بھائی بھابیاں ابا سے الگ ہونے کی بات کرتے ہیں تومیں ان کے حق میں ایسے ایسے مفروضے پیش کرتا ہوں، پاس پڑوس میں رہنے والی آشاؤ ں کے ساتھ مل کر ایسا غل غپاڑہ کرتا ہوں کہ آپ کی سوچ ہے، بیٹااپنے ہی نہیں ساتھ والے محلے سے بھی لوگ اکر انٹرویو کرتے ہیں،بات ہے تیرے بھائی کی۔
"سیلفیاں ہی سیلفیاں، ہائے رے میری سیلفیاں”
پپو بھائی پھر بہکنے لگے تھے۔ اچانک پپو بھائی آنکھ دبا کر بولے، جانی یہ جو بیچارے صحافی جلسے جلوسوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے گولیاں کھاتے ہیں یا کچھ میری طرح ابا کے مخالفین سے میل جول بڑھانے کے چکر میں مارے جاتے ہیں ان کو میرا مشورہ ہے کہ نڈر صحافی کبھی نہیں مرتا۔ مجھے ہی دیکھ لو، میری سائیکل کی کوئی ہوا نکال دے یا کبھی میری حرکتوں پر کوئی میرے کان کے نیچے بجا دے تومیں5-6گھنٹے چوک پر کھڑے ہو کر ابا کے وہ لتے لیتا ہوں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ علاقے میں میری بہادری کا ڈنکا الگ بج جاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے پپو بھائی نے ہمیں مسکرا کر دیکھا اور یہ جا وہ جا۔
صاحبو! پپو بھائی نڈر صحافی ہیں یا نہیں، یہ توہمیں نہیں پتہ لیکن جہاں ایک طرف ایوارڈ دینے والوں کی نیت کا پتہ چلانا مشکل ہے وہیں ایوارڈ لینے کے لیے ابا کی مخالفت ہی کیوں ضروری ہے اس کا پتہ چلانے کے لیے کوئی کمیشن بنے یا نہ بنے لیکن پپو بھائی سے پھر ملاقات بہت ضروری ہے۔