سیاست کا جہانگیر

اب اسی کی دہائی میں بے نظیر بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد واپس آئیں تو میں نے اس وقت صحافت میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔اس دور کو اگر پاکستان میں سیاست کے حوالے سے سب سے سنسنی خیز دور کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ ضیا الحق کے سیاہ مارشل لا کی وجہ سے پاکستان کے عوام پر گھٹن کے جو بادل چھائے تھے وہ آہستہ آہستہ چھٹ رہے تھے۔

ضیا الحق کو نظر آ رہا تھا کہ وہ جمہوریت کا سمندر زیادہ دیر تک روک نہیں سکیں گے۔ بے نظیر بھٹو کے لاہور میں شاندار استقبال نے ثابت کر دیا تھا کہ جبر سے لوگوں پر حکومت تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ اس استقبال کے روح رواں کوئی اور نہیں بلکہ لاہور کے موچی دروازے کے کھلے دل والے جہانگیر بدر ہی تھے۔

جہانگیر بدر کو اگر پاکستان کا سچا جمہوریت پسند کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اپنی تمام عمر وہ جمہوریت کی خاطر لڑتے رہے جس میں ایک لمبا عرصہ انھوں نے قید و بند میں گزارا اور بہت صعوبتیں برداشت کیں۔

زمانہ طالب علمی سے سیاست میں آئے، پنجاب یونیورسٹی، جو کہ جماعتِ اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں سے اس کے خلاف الیکشن لڑے، جنرل یحییٰ خان کے فوجی اقتدار اور مغربی پاکستان میں فوج کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور جیل گئے اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔

_92429737_badar
یحییٰ خان کے بعد جنرل ضیا اور جنرل ضیا کے بعد جنرل مشرف لیکن کسی قسم کا جبر پاکستان پیپلز پارٹی کے اس مردِ آہن کو جھکا نہیں سکا اور آخر تک وہ اس جماعت میں شامل رہے جس سے انھوں نے زمانہ طالب علمی میں رشتہ جوڑا تھا۔ ضیا کے دور میں ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا، انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور ان پر جسمانی تشدد کیا گیا لیکن انھوں نے اپنی جماعت اور اپنے رہنماؤں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔

جہانگیر بدر اور پیپلز پارٹی کا رشتہ ان کی آخری سانس تک قائم رہا. جہانگیر بدر سے ویسے تو زندگی میں کئی مرتبہ ملاقات ہوئی ہے لیکن شاید وہ امیج میرے ذہن سے کبھی نہ مٹ سکے جب بے نظیر بھٹو کی گاڑی چلاتے ہوئے جہانگیر بدر لاہور کے ایک ہوٹل میں میرے سامنے آ رکے۔

ہوا یوں کہ دفتر میں مجھے کہا گیا کہ فوراً جاؤ کیونکہ محترمہ ایک شادی میں شرکت کرنے آ رہی ہیں۔ میں بھاگم بھاگ ہوٹل پہنچا اور دروازے پر ہی اپنے ساتھی رپورٹروں کا انتظار کرنے لگا۔

ایک دم ایک بڑی فور وہیل گاڑی میرے سامنے آ کے رکی، ڈرائیونگ سیٹ پر جہانگیر بدر تھے اور پنک کپڑوں میں ملبوس بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ، جو گاڑی سے اتر کر ایک دم میرے سامنے آ گئیں۔ وہ شاید مجھے بھی شادی والے گھر کا کوئی فرد سمجھیں اور میرے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ جہانگیر بدر جو کہ گاڑی چلا رہے تھے نیچے آئے اور سلام کرتے ہوئے محترمہ کو ہوٹل میں لے گئے۔ میں جسے اس وقت میرے ایڈیٹر مجید شیخ ایک ‘کب رپورٹر’ کہتے تھے بے نظیر کے سحر میں ایسا کھویا کہ کچھ سدھ بدھ نہ رہی۔

جب میں نے اپنے ایڈیٹر کو یہ بتایا تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ‘اب ہاتھ نہ دھونا۔’ مذاق اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جہانگیر بدر ہمیشہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ تھے اور وہ انھیں اپنا بہت قریبی ساتھ سمجھتی تھیں۔ جہانگیر بدر نے بھی کبھی اپنی لیڈر کے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔

پیپلز پارٹی کے علاوہ جہانگیر بدر کا دوسرا پیار لاہور تھا اور وہ مرتے دم تک الف سے یے تک پکے لاہوریے رہے۔ سیاست میں ایسے جہانگیر کم کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے