سیاسی اونٹ

سیاست ٹھنڈے مزاج اور پرانے کھلاڑیوں کا کھیل ہے۔ جوشیلے لوگ اور اناڑی کھلاڑی فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے چکروں میں بہت بار ٹیم کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ سیاست سنجیدہ مزاج مانگتی ہے اور سیاست دان اپنے ٹویٹر کے اکاونٹ کے ساتھ ویری فائڈ کا نشان دیکھ کر باولے نہی ہوجایا کرتے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سیاسی بیانیہ ہوتا ہے۔

یہی تحریک کی جان ہوتا ہے۔ ہمارے مکرمی و محترمی خان صاحب جو بیانیہ لے کر اٹھے تھے وہ نہ صرف کرپشن کے خاتمے کا نعرہ دیتا تھا بلکہ ایک اضافی نعرہ بھی فراہم کرتا تھا، یہ نعرہ سڑکوں پر لگا بلکہ "گو نواز گو” پر اینڈرائیڈ گیمز بھی بنا ڈالی گئیں۔ اگر اسکا مقصد صرف کرپشن کا خاتمہ ہوتا تو اور بات تھی لیکن یہ سیاسی لوگوں کے خاتمے کا راگ بھی الاپ رہا تھا۔

ہم جب شروع میں کہا کرتے تھے کہ خان صاحب کے پاس کوئی ٹیم نہی ہے اور وہ نادانی میں کھیلتے چلے جا رہے ہیں تو کوئی مانتا نہی تھا۔ نواز ٹیم چونکہ پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ساتھ رکھتی ہے۔ تو انہوں نے اس میچ کو ٹی ٹونٹی کے انداز میں کھیلنے کی بجائے پانچ روزہ ٹیسٹ ہی کھیلنے کی سوچی اور اس میں وہ بخوبی کامیاب رہے۔ خان صاحب سپنرز کو چکھے مارتے رہے اور وہ اسے بڑی کامیابی تصور کرتے رہے اور انکی ٹیم باہر کھڑی داد و تحسین کے ڈونگرے برساتی رہی، جس سے خان صاحب ان سپنرز کو ایزی لے لیا۔

خان صاحب، اسی سیاسی بیانیے کے چکروں میں کوئی دو سے تین بڑے قدم اٹھا چکی ہے۔ اب یہ سیاسی بیانیہ انکے گلے کا پھندہ بننے چلا ہے۔ سیاست کی خوبی ہوتی ہے کہ آپکے فیصلے جتنے بروقت اور نپے تلے ہونگے حالات اتنے موافق اور موزوں رہینگے۔

پاناما لیکس کے ککڑ نے بہت بانگیں دیں۔ لیکن نواز حکومت نے اسے ٹھنڈی کرکے کھانے کا سوچا۔ اس سے پہلے ایسا ہی سیاست دان ہماری قوم دیکھ چکی ہے۔ آپکو زرداری صاحب کے خطوط والا معاملہ یاد ہوگا۔ اوپوزیشن نے ناک رگڑ دی، خط نہ لکھے گئے، اور اپوزیشن کے ہاتھ سیاست چمکانے کا موقع آگیا۔ لیکن زرداری صاحب نے کمال مہارت سے، سجی دکھا کر کبھی ماری (دائیں دکھا کر بائیں سے وار کرنا)۔ یہ بات زرداری صاحب کے علم میں تھی کہ ان خطوط سے کچھ نہی ہونے والا، لیکن اس سے اپوزیشن کی طبعیت صاف ہوسکتی تھی۔ اور پھر وقت گذرتا گیا اور مناسب وقت آیا تو زراداری صاحب نے خط لکھ دئیے۔ ہوا کچھ بھی نہی۔ لیکن زرداری صاحب کو اس چال سے کچھ فائدہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا کیونکہ انکی مقبولیت بہت کم ہوچکی تھی۔

پانام لیکس کی کھپ جب خان صاحب نے ڈالی تو انہیں لگا کہ نواز شریف اینڈ پارٹی جس طرح کنی کترا رہی ہے۔ انکی پوزیشن کمزور ہے اور یہی طریق ہے جس سے انہیں کامیابی ملے گی۔ کیونکہ انکے خیال میں کبھی بھی، نواز شریف اور انکی جماعت راضی نہ ہوگی اور نہ یہ کیس عدالت میں جائے اور اس سے گیند خان صاحب کے کورٹ میں آ گرے گی۔

پھر وہی ہوا، عین مناسب وقت پر اس بات پر رضامندی ہو گئی، آن دی ریکارڈ خان صاحب بہت خوش نظر آئے۔ اور اب کیس عدالت میں موجود ہے۔ اور شروعاتی باتوں نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے۔ خان صاحب اگر یہ کیس جیت جائیں تو بہت عمدہ لیکن زیادہ قرین قیاس جو ہے وہ وہی ہے کہ کسی صورت میں نواز شریف یہ ہارنا نہی چاہینگے۔ اسکا خطرناک انجام جسکا خان صاحب نے سوچ بھی نہ رکھا ہوگا۔ وہ خان صاحب کی سیاسی موت کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔۔

اس کیس کے جیتنے کی صورت میں، نواز شریف اینڈ پارٹی پاک صاف دھل کر سامنے آ جائے گی۔ اور پھر خان صاحب کے لئے اگلے آنے والے الیکشن میں کیمپئن کے لئے کچھ نہی بچے گا۔ جو انکے سیاسی بیانیے کو تقویت دے سکے۔ پھر لے دے کر بھڑکیں اور تسلیاں ہی بچینگیں۔

نواز حکومت کو اس بات کا علم تھا کہ اگر یہ پانامہ والی پٹاری سر پر رہی تو الیکشن میں بہت نقصان ہوگا۔ اسلئے انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے، اسکے بعد خان صاحب کس منہ سے نیا رولا لانچ کرینگے؟ اور اگر کرینگے تو کون یقین کرے گا، کیونکہ عوام تو اپنے سو سو روپے تک واپس مانگ رہی ہے ور انکا حساب مانگ رہی ہے؟

خیر، ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ٹرمپ جیت جائے (یہ واقعاتی مماثلت ہے)۔ دیکھئے سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے