لوہار، نسخہ کیمیاء اور چیخو خان

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لوہار جس کی ایمانداری کے چرچے دور دور تک سنائی دیتے تھے ، اس نے لوہے کو پگھلا کر مختلف اشیا بنانا شروع کر دی ۔محنت میں عظمت کے جذبے سے سرشار اس لوہار کو ایک ایسا نسخہ کیمیا ہاتھ آگیا کہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو اس میں موجود لوہے کے ذرات اکٹھے ہو کر لوہے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے . یوں اس ایمان دار لوہار کے دن پھرنا شروع ہوگئے .

اس کے بعد وقت گزرتا گیا اور دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی گئی . اسی اثنا میں اسے قدرت نے پھول جیسے بچوں سے نوازا ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ایک ظالم اور جابر بادشاہ نے اس سے تمام مال ودولت چھین لیا ۔اس کے پاس صرف شریف ترین اولاد ہی رہ گئی اور باقی سب کچھ ختم ہوگیا ،،لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور صحراوں میں نکل گیا چونکہ اس کے پاس وہ نسخہ کیمیا موجود تھا سو اس ایمان دار لوہار نے ریت پر آزمایا اور کامیاب رہا .

ریت پر بھی اس نے ایسے ہی اثر کیا اور ریت لوہے کے ساتھ ساتھ تانبے میں بدلنے لگی اور ترقی کی رفتار پہلے سے بھی دوچند ہوگئی لیکن اب کی بار اس لوہار نے سوچا کہ کیوں نہ ظالم اور قاہر حکمرانوں کے شر سے بچنے کے لئے اپنے شریف ترین بچوں کو ہی حکمران بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ کسی بھی کیمیا گر کی دولت لٹنے کا اندیشہ نہ رہے .

پھر قسمت نے یوں بھی مہربانی کی کہ اس ملک میں فرشتوں کی حکومت آگئی . فرشتوں نے روئے زمین کے شریف انسانوں کو عوامی خدمت کے لئے مناسب جانا اور مدد شروع کردی اور یوں کاروبار کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اسی خاندان کے پاس آتی گئی اور تحقیق کا عمل آگے بڑھا ، وہ نسخہ کیمیا جس سے ریت تانبے میں تبدیل ہو رہی تھی اس میں مزید ترقی ہوتی گئی اور تانبا سونے میں تبدیل ہوتا گیا . یوں لکشمی دیوی ان کے گھر کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتی گئی اور اس خاندان کا شمار ایسے مالدار لوگوں میں ہونے لگا جن کو پوری دنیا میں انگلی پر گنا جا سکتا ہے

عنان حکومت پاس ہونے پر جب تک یہ فرشتوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے سب ٹھیک رہا لیکن پھر یوں بھی ہوا کہ یہ ان کی بات سنی ان سنی کرنے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بار پھر ان شرفاء کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی لیکن ان کے والد ایمان دار لوہار ابھی حیات تھے اور نسخہ بھی ان کے پاس تھا سو انھوں نے ہمت نہ ہاری .

حکومت تو چلی گئی لیکن لکشمی دیوی بدستور ان پر مہربان رہی اور تانبے سے سونے میں تبدیل ہونے کا عمل چلتا رہا اور پھیلتا رہا اور اس قدر وسیع ہوا کہ صحراوں نے نکل کر ٹھنڈے علاقوں میں بھی پھیل گیا ۔ان ٹھنڈے علاقوں میں انھیں ایک نیک اوربھلے مانس انسان نے ان کی ایمان داری سے متاثر ہوکر محل بنا کر دیے جہاں کئی سال تک یہ خاندان پھلتا پھولتا رہا ۔

پھر قدرت مہربان ہوئی اور ایک بار پھر ان کے ہاتھ عنان حکومت بھی آگئی لیکن اس بار انھوں نے فرشتوں کی مدد نہ لی اور ان کو آنکھیں دکھاتے رہے .اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک ایسا کھلاڑی جو باولنگ سے زیادہ ایمپائر کی انگلی پر دھیان رکھتا تھا جسے کوئی تبدیلی خان کہتا تھا تو کوئی چیخوں خان ان کے پیچھے لگ گیا اور جو ان کے تمام راز ایک ایک کر کے افشاءکرنا شروع ہوگیا ۔

اس میں اس چیخوخان کو فرشتوں سے بھی مدد ملتی رہی. اس نے لوگوں کے سامنے ان کے چیخ چیخ کر پول کھولنا شروع کر دیے . اس کا کہنا تھا ان کے پاس جو نسخہ کیمیا ہے اس سے ان کی مٹی تو سونا بن رہی ہے لیکن عام بندوں کا سونا بھی مٹی بنتا جا رہا ہے . سو جیسے ہی یہ شرفاء لوہے کو تانبا اور تانبے کو سونا بنانے کا کام شروع کرتے چیخوشور مچانا شروع کردیتا ، جس کے باعث انھیں عارضی طور پر یہ سارا کیمائی عمل روکنا پڑتا تاکہ کسی اور کے ہاتھ یہ راز نہ لگ جائے ۔

گوآج بھی یہ خاندان سب کچھ ایمان داری سے کر رہا ہے اور اب تو اس کے تجربات اور تحقیقات تیسری نسل میں منتقل ہو چکے ہیں اور قسمت کی دیوی ان پر اب بھی مہربان ہے لیکن یہ چیخو خان ان کی لکشمی اور قسمت کی دیوی کو نہ صرف خشمگیں‌نگاہوں سے دیکھتا ہے بلکہ موقع بہ موقع ٹہوکے مارنے سے بھی باز نہیں آرہا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے