میرا سلطان اور متقی میوے

اہل مذہب اپنی گروہی عصبیت کی بنیاد پر جس دیدہ دلیری سے غلطیوں کا دفاع کرتے ہیں، دیکھ کر خوف آتا ہے.

انہیں کبھی دنیا میں طاقت مل گئی، لوگ بش کو بھول جائیں گے.

دلیل اور انصاف سے انہیں بھی کوءی واسطہ نہیں. عصبیت ہی ترجیح اول ٹھہرتی ہے. کوئی بھی عصبیت سے بلند ہو کر ظلم کو ظلم نہیں کہتا. سب کے اپنے اپنے ظالم ہیں اور اپنے اپنے مظلوم. ظلم کی مذمت کرنے سے پہلے اب یہ دیکھنا ضروری ہو چکا ہے کہ مظلوم اور ظالم کا تعلق کس گروہ ہے. اگر ظالم امریکہ ہو اور مظلوم کا نام عافیہ صدیقی ہو تو ہمارا روشن خیال طبقہ گونگا شیطان بن جاتا ہے. اور اگر انصاف کا دامن قبلہ اردوان چھوڑ کر انتقام کی راہ پر چل نکلیں تو ہماری نیک روحیں ترک اساتذہ کے انسانی حقوق سے یکسر بے نیاز ہی نہیں ہو جاتیں انہیں یہ الہام بھی ہو جاتا ہے کہ یہ اساتذہ یہودی ایجنٹ بھی ہیں.

ان کے فکری افلاس پر بھی ترس آتا ہے. ایسے ایسے صالح نابغے موجود ہیں جو کہتے ہیں ترک اساتذہ کے لیے تو بہت بول رہے ہو عافیہ صدیقی کے لیے کیوں نہ بولے. ان متقی میووں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم عافیہ صدیقی کے لیے بھی بولے تھے اور بولتے رہیں گے. عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے عدالتی ظلم پر میری پوری کتاب موجود ہے جس کا عنوان ہے :Afia trial:travesty of justice.

لیکن عافیہ کے ساتھ ہونے والا ظلم ان متقی میووں کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے ظالم کا دفاع کرنا شروع کر دیں.

ان دو انتہا پسند رجحانات میں گھری خلق خدا کو انسانیت دوست رویوں کی ضرورت ہے. انصاف پسند رویوں کی ضرورت ہے جو کسی ظلم کو ظلم کہنے سے پہلے ظالم اور مظلوم کا شجرہ نسب جاننا ضروری خیال نہ کرے.

ظلم ظلم ہوتا ہے تیرا سلطان کرے یا میرا سلطان کرے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے