اسلام آباد : اسلامی نظریاتی کونسل (آئی آئی سی) نے لاپتہ افراد کی بیویوں کی حالت زار سے متعلق کئی پیغامات موصول ہونے کے بعد ان خواتین کی دوسری شادی سے متعلق اسلامی نقطہ نظر جانچنے کے لیے غور و فکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں لاپتہ افراد کی بیویوں کو دوسری شادی کرنے کی اجازت حاصل ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت ہوا، مولانا شیرانی کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ آخری اجلاس تھا، جس میں تحفظ خواتین اور بچوں سے متعلق بل کے مسودوں کا جائزہ لیا گیا، مولانا شیرانی آئندہ ماہ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل دونوں بلوں کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ انصاف و قانون کے پاس بھیجے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس اہم ترین اجلاس میں لاپتہ افراد کی بیویوں کی جانب سے دوسری شادی سے متعلق جائزہ لیا گیا، اسلامی نظریاتی کونسل میں شیعہ مسلک کی نمائندگی کرنے والے علامہ افتخار نقوی کے بیرون ملک دورے پر جانے کی وجہ سے اجلاس میں شیعہ مسلک کے علامہ عارف واحدی نے مولانا شیرانی کی خصوصی دعوت پر شرکت کی۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں واحد خاتون ممبر ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی نے لاپتہ افراد کی بیویوں کو نصف بیوائیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ گمشدہ افراد کی بیویاں کئی ذہنی و جسمانی مسائل سے دوچار ہیں۔
سمیہ راحیل قاضی کا کہنا تھا کہ نصف بیوائیں مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان میں بھی موجود ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نصف بیواؤں یا ان کے گھر والوں نے کئی بار ان سے دوسری شادی سے متعلق اسلامی نقطہ نظر جانچنے کے لیے خط لکھے ہیں۔
سمیعہ راحیل قاضی کا کہنا تھا کہ لاپتہ شوہروں کی بیویوں کو سب سے زیادہ اذیت اس وقت ہوتی ہے، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس کی بیوی ہیں؟ان کے مطابق کئی خواتین کے شوہر کئی سال تک غائب رہتے ہیں جبکہ کئی بار سالوں بعد خواتین کے شوہروں کی لاش ملتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران نے لاپتہ افراد کی بیویوں کی دوسری شادی سے متعلق بحث کے دوران امام مالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی بیویاں اپنے شوہر کا چار سال تک انتظار کرسکتی ہیں۔
شیعہ مسلک کے علامہ عارف واحدی کے مطابق لاپتہ افراد کی بیویوں کی جانب سے دوسری شادی کرنے یا نہ کرنے والے مسئلے کا کوئی بھی سیدھا اور براہ راست حل نہیں ہے، تاہم چار سال کے انتظار کا آپشن اچھا ہے، لیکن پھر بھی متاثرہ خاتون کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے عالم دین سے رجوع کرے تو بہتر ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین مولانا محمد شیرانی کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے غائب ہونے والے افراد کا معاملہ سنگین نوعیت کا ہے، کئی لوگوں کو ایجنسیز کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے اور پھر کئی لوگ مردہ حالت میں ملتے ہیں۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی بیویوں کی جانب سے دوبارہ شادی کرنے والے معاملے کا اجلاس میں جائزہ لیا گیا مگر تاحال اسلامی نظریاتی کونسل کسی نتیجے پر نہیں پہنچی،کونسل عورتوں کی دوبارہ شادی کرنے والے معاملے پر مختلف تجویزوں پر غور کر رہی ہے۔
مولانا شیرانی کے مطابق دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی لاپتہ افراد کی خواتین کو یہی مسئلہ درپیش ہے، مصر اور شام کی خواتین اپنے لاپتہ شوہروں کا 2 سے 3 سال تک انتظار کرتی ہیں، جب کہ بھارت میں خواتین لاپتہ شوہروں کا 4 سال تک انتظار کرتی ہیں۔
یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے خواتین کی طرح حقوق مرداں کا بل لانے کا بھی مطالبہ کیا تھا، زاہد محمود قاسمی نے مولانا شیرانی کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا معاشرے میں مردوں کی حق تلفی ہو رہی ہے، اس لیے حقوق مرداں بل بھی ہونا چاہیے، جس کے بعد کونسل نے حقوق مرداں کو بحث کے لیے ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔
اس سے پہلے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو مختلف معاملات پر تکراری بیانات دینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ حقوق نسواں بل کو غیر اسلامی قرار دیا تھا، جس پر بھی کونسل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔