مسئلہ آرمی چیف کےمسلمان ہونےکا

اب جب بات یہاں تک آگئی ہے کہ محض "پاکستان میں پیدائش ” کافی نہیں ہے ، نہ ہی محض "پاکستانی شہری ہونا ” کافی ہے ، بلکہ "اہلیت "کا کوئی مزید معیار بھی ہوسکتا ہے ، تو سوال یہ ہے کہ اہلیت کا یہ معیار کس قانون کی رو سے طے ہوگا؟

دستورِ پاکستان کی پہلی دفعہ اس ملک کو "اسلامی جمہوریہ” قرار دیتی ہے۔ اس دستور کی دوسری دفعہ اسلام کو اس ملک کا "ریاستی مذہب” قرار دیتی ہے۔ پھر دفعہ 2 – الف اعلان کرتی ہے کہ قراردادِ مقاصد دستور نافذ العمل حصہ ہے ۔ قراردادِ مقاصد نہ صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلی کا اعلان کرتی ہے بلکہ یہ بھی صراحت کرتی ہے کہ اہلِ پاکستان تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کریں گے۔ دفعہ 8 کا یہ کہنا ہے کہ جو قوانین دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم ہوں وہ تصادم کی حد تک کالعدم ہوں گے۔ تاہم آگے تقریباً ہر بنیادی حق کے متعلق اعلان کیا گیا ہے کہ یہ لامحدود نہیں بلکہ "قانون ، امن عامہ اور اخلاقیات” (subject to law, public order and morality)کی حدود میں مقید ہے ۔ یہاں قانون سے مراد صرف ریاستی قانون نہیں بلکہ اسلامی قانون بھی ہے۔ چنانچہ کسی بھی حق پر اسلامی قانون کی قیود بہرحال موجود ہیں ۔

آگے دیکھیے کہ دستور میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے ضمن میں دفعہ 31 میں تصریح کی گئی ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو اسلام کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرے گی۔ پھر دفعہ 41 میں قرار دیا گیا ہے کہ صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ دفعہ 91 میں یہی تصریح وزیرِ اعظم کے متعلق کی گئی ہے ۔ دونوں کے حلف نامے میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ "وہ نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لیے کوشش کریں گے جو کہ پاکستان کے تخلیق کی بنیاد ہے ۔”ان دونوں کے حلف ناموں میں توحید اور ختم نبوت پر ایمان کا اقرار بھی ہے۔

دفعہ 227 کے تحت اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت میں مذکور احکامِ اسلام سے متصادم ہو اور یہ کہ موجودہ تمام قوانین کو ان احکام کے مطابق کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کو سفارشات دینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل گئی ہے۔ پھر وفاقی شرعی عدالت بھی بنائی گئی ہے جس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ احکامِ اسلام سے متصادم قوانین کو تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے۔

وفاقی شرعی عدالت کے نہ صرف تمام ججز کا مسلمان ہونا لازمی ہےبلکہ اس عدالت میں ایک فریق یا دوسرے فریق کے حق مین دلائل دینے والے وکیلوں کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر جب اس عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے بنچ میں اپیل کی جاتی ہے تو اپیل کی سماعت کرنے والے تمام ججز کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے ۔ دفعہ 260 میں مسلمان اور غیر مسلم کی تعریف بھی پیش کی گئی ہے جس کی رو سے احمدیوں کے دونوں گروہ غیر مسلم قرار پائے ہیں ۔

ان دفعات اور دیگر کئی دفعات کی موجودگی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے بارہا یہ فیصلہ سنایا ہے کہ پاکستان کا دستور "اسلامی ” ہے، سیکولر نہیں اور یہ کہ یہ اسلامیت ایک عام دستوری ترمیم کے ذریعے بھی ختم نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لیے نئی دستور سازی کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ عوام کے سامنے باقاعدہ صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا جائے کہ ہم اسلامی دستور ختم کرکے سیکولر دستور لانا چاہتے ہیں ؛ پھر اگر اس پروگرام اور منشور پر عوام نے اتنی اکثریت منتخب کروائی جو ایسی دستوری ترمیم کرسکے تو صرف اسی صورت میں ہی یہ اسلامیت ختم ہوسکتی ہے۔

اسلامی قانون کے اصول اس ضمن میں یہ ہیں کہ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے تحت رہتے ہوں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی غیرمسلم کی کمان کے تحت جنگ لڑیں ، الا یہ کہ اپنے دین اور جان و مال کی حفاظت کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہو۔ اس استثنائی صورتحال کی مثال سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان بعض صحابہ کی زندگی سے ملتی ہے جب وہ حبشہ میں مقیم تھے اور حبشہ پر دشمن ملک نے حملہ کیا تو مسلمانوں کو یقین تھا کہ اگر دشمن کا غلبہ ہوا تو ان کی دینی آزادی باقی نہیں رہ سکے گی۔ چنانچہ وہ نجاشی کی فوج کی معیت میں دشمن کے خلاف لڑے اور فقہائے کرام اسے انفرادی حق دفاع کے تحت ذکر کرتے ہیں۔

جہاں تک ایسے علاقے کا تعلق ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو تو وہاں لازم ہے کہ ان کا سپہ سالار مسلمان ہو ۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ایک یہ کہ اسلامی قانون کی رو سے جہاد ایک عبادت ہے جس کا مطالبہ صرف مسلمان سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ جیسے غیرمسلم سے نماز کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ایسے ہی اس سے جہاد کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔مزید یہ کہ اصلاً غیرمسلموں کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ البتہ چونکہ غیرمسلموں کو اپنی جان ، مال اور دوسرے حقوق کے دفاع کا حق حاصل ہے ، تو وہ اپنی مرضی سے مسلمانوں کو شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں اور اس بنا پر بہت سی رعایتوں اور انعام و اکرام کے بھی مستحق ہوجاتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے غیرمسلم کو مسلمان کے اوپر قانونی اختیار (ولایہ) حاصل نہیں ہوتا ۔ جب تک موجودہ دستور کی اسلامیت برقرار ہے ، اسلامی قانون کا یہ اصول دستورِ پاکستان کی رو سے بھی لازم ہے ۔

واضح رہے کہ دستور کی روسے مسلح افواج کے حلف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ "اسلامی جمہوریۂ پاکستان” کے دستور کا تحفظ کریں گے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اس دستور کی اس کی اسلامیت سمیت حفاظت مسلح افواج کی ذمہ داری ہے ۔ اس حلف کا آغاز "بسم اللہ الرحمان الرحیم ” سے اور اختتام ” اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی کرے” کے الفاظ پر ہوتا ہے ۔

ہمارے لبرل دوست ہر معاملے میں "عوام کے حقِ انتخاب” کی بات کرتے ہیں ۔ یہاں بھی یہی حقِ انتخاب فیصلہ کرچکا ہے اور جب تک یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا خود ان لبرلز کے اصول کے مطابق اس اسلامی دستور کی کی پابندی ضروری ہے ۔ ہمارے ان لبرلز دوستوں کے سامنے ہم یہاں روتھ شیلڈ خاندان کے اس چشم و چراغ کی مثال رکھیں گے جو یہودی ہونے کے باوجود لندن سٹی سے دارالعوام کا رکن منتخب ہوا تو اس نے حلف لینے سے انکار کیا کیونکہ حلف کے الفاظ میں "ایک مسیحی کے سچے ایمان” (the true faith of a Christian) کے الفاظ تھے۔ اس کی رکنیت ختم ہوئی۔ پھرالیکشن ہوئے اور وہ منتخب ہوا۔ پھر اس نے انکار کیا ۔ پھر یہ سلسلہ دہرایا گیا ۔ یہاں تک کہ بالآخر برطانوی پارلیمنٹ نے قانون منظور کرکے اس حلف کے الفاظ تبدیل کرلیےاور پھر روتھ شیلڈ نے حلف اٹھالیا۔ یہی اصولی طریقہ ہمارے لبرلز کے سامنے کھلا ہے ۔ عوام کے سامنے کھل کر اسلامی دفعات ختم کرنے کا منشور پیش کیجیے اور عوام اس کے باوجود آپ کو منتخب کرلیں تو پھر بے شک اسلامی دستور کو سیکولر دستور میں تبدیل کیجیے۔ جب تک موجودہ دستور برقرار ہے ، عوام کا فیصلہ یہی ہے اور اس فیصلے کی پابندی آپ پر آپ کے اپنے اصول کی رو سے لازم ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے