کشمیریوں کی آواز کیوں نہیں سنی جاتی؟

کشمیر کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں جینا مشکل تر ہو گیا ہے بلکہ آزاد کشمیر میں بھی لائن آف کنٹرول کے گرد بسنے والوں کا قتل عام بھی تیز تر ہو گیا ہے۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر بے مثال اور ناقابل تسخیر جذبہ دکھایا ہے اور بھارت نے پہلے کے مقابلے میں دگنی طاقت سے کشمیریوں کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان نے بھارتی قابض فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دنیا بھر میں تشہیر کے لئے سفارتی مشن بھیجے اور اقوام متحدہ کے فورم پر بھی مسئلہ کی بھر پور انداز میں وکالت کرنے کی کوشش کی۔ کشمیری بھی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی اپنی سی ہر کوشش کر چکے ہیں۔130 دن سے زائد کرفیو اور ہڑتال میں اربوں روپے کا معیشت کو نقصان، 100 سے زائد ہلاکتوں ، پندرہ سو سے زیادہ لوگوں کے نابینا ہونے اوردس ہزار سے زائد زخمیوں کی خبر بھی عالمی میڈیا اور اثر و رسوخ رکھنے والی طاقتوں کو اپنی طرف اس طرح متوجہ نہیں کر سکی، جس طرح ہونا چاہئے تھا۔

کشمیر میں جب بھی کوئی نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے اسے پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا وزیر اعظم جب اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو اسے کسی بین الاقوامی میڈیا میں جگہ نہیں ملتی۔ اس پر سوال اٹھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس میں کس کا قصور ہے ؟ کیا پاکستان کی کشمیر پر خارجہ پالیسی کا قصور ہے یا اس مقدمے میں اب دنیا نے دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے؟ ان جیسے کئی اور سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو ہماری کشمیر پر خارجہ پالیسی اور کشمیر کے اسٹیٹس پر بھی مزید سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اس بحث میں پہلی بات یہ ہے کہ کشمیر کی اس وقت اپنی کوئی شناخت نہیں ہے ۔اسے دنیا کے سامنے پاکستان پیش کرتا ہے یا دنیا اسے ہندوستان کے حوالے سے جانتی ہے حالانکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یعنی ’’آزاد کشمیر ‘‘ کا مکمل ریاستی سیٹ اپ موجود ہے ،جس کا اپنا صدر، وزیر اعظم، سپریم کورٹ اور ترانہ بھی ہے۔لیکن اس سیٹ اپ کو اسلام آباد سے باہرپہچانا جاتا ہے نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے۔

حالیہ دنوں میں اسی حوالے سے دو بڑی مثالیں موجود ہیں۔ جب جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم گئے تو ان کے ساتھ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی نیویارک گئے (سردار مسعود خان اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت بھی کام کر چکے ہیں اس کے علاوہ وہ امریکہ اور چین میں پاکستانی سفارتکار بھی رہ چکے ہیں) تو ان کو نیویارک پریس کلب کے علاوہ صرف کشمیری کمیونٹی سے خطاب کا موقع مل سکا۔

اسی طرح وزیر اعظم آزاد کشمیر کو بھی یورپ کے دورے پر پریس کلب اور وہاں مقیم کشمیر کمیونٹی سے آگے جانے کا موقع نہ مل سکا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزاد حکومت کس قدر کردار ادا کر سکتی ہے ۔ پاکستان دنیا میں ہر جگہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اب کشمیر کے معاملے پر اقوام عالم(سوائے دوست ممالک کے) بھی پاکستان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے اور بھارت دنیا میں یہ ثابت کر رہا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ کشمیر کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے جو دنیا تک پہنچ سکے اور دنیا کو بتا سکے کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں، کیسے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔

1947,48 میں’’ جنجال ہل‘‘ (آزاد کشمیر کا سابق دارالحکومت) سے صدر آزاد کشمیر ایک بیان دیتا تھا تو اسے واشنگٹن پوسٹ اور تمام بین الاقوامی میڈیا جگہ دیتاتھا۔ کیا وجہ ہے کہ آج وزیر اعظم پاکستان اقوام متحدہ میں 12 منٹ تک کشمیر پر بولتے ہیں لیکن ان کی اس آوازکو عالمی میڈیا جگہ نہیں دیتا اور آج ہماری آواز کوئی سننے والا نہیں ہے ، ایسا کیوں ہے؟ سیاسی موقرین اور اکیڈیمیا کی معتبر شخصیات کی اس سلسلہ میں رائے یہ ہے کہ اس وقت کا صدر طاقتور تھا اور وہ اپنے اختیارات اور حیثیت جانتا تھا ، وہ کشمیر کی آواز تھا جبکہ آج کشمیر اپنی آواز سے محروم ہے۔

سردار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں حکومت کا با اختیار دور 1970۔75 رہا ، اس عرصے میں آزاد کشمیر کا صدر بہت زیادہ حد تک با اختیار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا کشمیر سے متعلق نظریہ دوٹوک اور واضح تھا اور وہ اتنے جمہوریت پسند تھے کہ کہتے تھے اگر کشمیر ہندوستان سے بھی الحاق کرے تو ان پر کوئی جبر نہیں۔ آج ہم انہی کے نظریے کو نہیں سمجھ رہے کہ وہ کشمیر کو کیا دیکھنا چاہتے تھے۔

ڈاکٹر خان سے جب سوال کیا کہ کس طرح ممکن ہے کہ کشمیر کی آواز بین الاقوامی سطح پر سنی جائے تو ان کا کہنا تھا کہ آزاد حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہئیے تاکہ ہندوستان کے پروپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے اور اور اس حکومت میں اتنی طاقت ہونی چاہئیے کہ بین الاقوامی برادری ان کی آواز سن سکے۔

اس پرپوچھا کہ کیا آپ کے ۔ایچ خورشید کے نظریہ کی بات تو نہیں کر رہے کہ آزاد حکومت کی الگ شناخت ہو؟ ان کا کہنا تھا کہ ”الگ شناخت کیلئے تو وقت لگے گا اور اس کیلئے کوششوں کی ضرورت ہے جو کسی سطح پر نہیں ہو رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں پر کے۔ایچ خورشید کو آزاد کشمیر بھی میں غدار کہا گیا حالانکہ وہ ابتلاء کے دور میں قائداعظم کے معتبر ترین ساتھی رہ چکے ہیں۔ تاہم پاکستان کو چاہئیے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے بیرون ملک جانے والے وفود میں کشمیریوں کو رکھے تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنا مقدمہ پیش کر سکیں اور اس کو دنیا بھی سنے گی”

پاکستان اور کشمیر کے تعلق کو دیکھیں تو پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 واضح کرتا ہے کہ رائے شماری کے وقت کشمیر کے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق کرتے ہیں یا کوئی بھی تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔

آئین کا آرٹیکل 257 ’’When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.‘‘ہے۔

آئین پاکستان جس کے مطابق کشمیر کی حیثیت متنازع ہے اور اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ،کسی بھی صورت کشمیر کو الگ شناخت سے نہیں روکتا بلکہ انہیں حق دیتا ہے کہ وہ اپنی شناخت برقرار رکھ سکیں اور وہ اپنی بات دنیا تک پہنچا سکیں۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے پیش نظر آزاد حکومت جسے اسلام آباد کی حد تک ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جاتا ہے، دنیا میں بھی اسے ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کروایا جائے تاکہ دنیا کے سامنے کشمیری اپنی آواز خود بلند کر سکیں اور اپنی شناخت سے بات کر سکیں۔ اس سے پاکستان کے موقف کو تقویت پہنچے گی اور بھارت کو چوٹ ہو گی۔اس حوالے سے آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر (اپوزیشن میں ہوتے ہوئے)بھی پاکستان سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ کشمیر کو بین الاقوامی اداروں میں نمائندگی دلوائی جائے تاکہ وہ بہترین طریقے سے اپنا مقدمہ پیش کر سکیں۔

اس ضمن میں صحافی سردار عاشق لکھتے ہیں کہ’’ کیا پاکستان ایسا چاہے گا کہ کشمیرالگ ریاست کے روپ میں سامنے آئے؟ پاکستان کے آئین میں ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت متنازع خطہ کی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 257 کشمیریوں کی الگ شناخت ظاہر کرنے سے نہیں روکتا۔ بات صرف سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے باشندے اپنی الگ شناخت کی بنیاد پر ہی پاکستان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ غازی ملت سردار ابراہیم جب اقوام متحدہ میں گئے حالات اور معاملات ان کے کنٹرول میں نہ تھے پھر بھی ان کی مثال دی جاسکتی ہے کہ کوئی تھا جسے کشمیریوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہوا تھا۔ جب تک معتبر عالی اداروں میں کشمیر کی اپنی نمائندگی نہ ہوگی ، کوئی بھی کشمیریوں کی آواز کو نہیں سن سکے گا۔ کشمیریوں کے لئے اٹھائی جانے والی ہر آواز کو کسی بیرونی طاقت کا پروپیگنڈہ ہی سمجھا جائے گا۔ اقوام متحدہ اپنی تمام تر نااہلی کے باوجود تمام اقوام کا نمائندہ ادارہ ہے اور ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ڈھنڈورہ ستر سال سے پیٹتے آئے ہیں لیکن آج تک کشمیری قیادت نے اقوام متحدہ کے میکانزم اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس ادارے میں گھسنے کی ضرورت محسوس کی۔ اس عالمی ادراے کے ایجنڈے پر کشمیر یوں کے حق خودارادیت کا مقدمہ بڑا پرانا ہے۔ اس مقدمہ کے بعد دائر کیے جانے والے کئی مقدمات اپنے انجام کو پہنچے۔ سرینگر ، مظفر آباد اور گلگت میں قائم حکومتیں بھی اس سلسلے میں کوئی کام کرنے میں ناکام رہیں۔مظفر آباد کی حکومت نے اب تک دنیا میں اپنا تعارف کرانے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کا ٹھیکہ حکومت پاکستان کو دے رکھا ہے‘‘۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور کشمیر کو اس بات کا ادراک ہو کہ مقدمے کے چلنے میں وکیل کے ساتھ بھی مدعی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ قابل ترین وکیل بھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔اس لئے پاکستان عالمی سطح پر نمائندگی کا اپنا فرض ادا کر چکا ، جس طرح بھی سہی، اب کشمیریوں کو اپنا کردار نبھانا ہوگا اور خود کو منوانا ہوگااور پاکستان کو بھی یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مدعی کا ہونا لازمی ہے۔شائد یہی طریقہ ہو کہ ہماری آواز دنیا سن سکے اور سمجھ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے