شکریہ حسن ناصر!

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف نبرد آزما ایک ایسا ملک جس کے قیام سے لے کر اب تک پانچ صدور فوجی رہ چکے ہوں اس ملک کے آرمی چیف کا وقت پر ریٹائرمنٹ لے لینا واقعی اہم خبر ہے۔ مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اسے ایک اچھی روایت کا قائم ہونا کہا جارہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ "شکریہ” کا لاحقہ جڑا رہا۔ اب اُن کی ریٹائرمنٹ پر بھی لوگ اُن کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔

مگر اس مرتبہ اُن کے ساتھ ساتھ شکریہ کے اصل حقدار وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک مارشل لا کے خلاف اور پاکستان میں آئینی اور جمہوری حکومتوں کے قیام کے لئے قربانیاں دیں اور اپنی جان کے نذرانے پیش کئے۔ یا کسی بھی قسم کے جبر و استبداد اور غیر جمہوری قوتوں کے آگے جنھوں نے سر نہیں جھکایا۔ کوئی بھی اچھی روایت یونہی قائم نہیں ہوجاتی۔ اُس کے پیچھے ایک داستان ہوتی ہے۔ فکرو نظریے سے جُڑی داستان۔ قربانیوں سے عبارت داستان۔ اس ملک کے عقوبت خانوں کے درو دیوار یہ داستانیں سناتے ہیں۔

مشہور تو یہ ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن اگر سننے والا ہو تو یہ دیواریں بولتی بھی ہیں۔ لاہور کے شاہی قلعے کے درو یوار بھی آپس میں باتیں کرتے

حسن ناصر
حسن ناصر

ہیں اور سیر و تفریح کے لئے آنے والے لوگوں کو بہت سی کہانیاں سنانا چاہتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو اجتماعی بہرہ پن کا شکار ہیں وہ درو دیوار اور فصیلوں کی گفتگو کیسے سن سکتے ہیں۔ قلعہ لاہور کا بدنامِ زمانہ عقوبت خانہ برطانوی راج کے زمانے سے جبرو تشدد کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔

بھگت سنگھ کو بھی گرفتاری کے بعد اس قلعے میں قید رکھا گیا تھا۔ اس قلعے کے درو دیوار کی زبانی حسن ناصر کی کہانی بھی سننے کو ملتی ہے۔ حسن ناصر کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور کراچی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا۔ قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں اور جلا وطن بھی کئے گئے۔ حسن ناصر اس ملک کی اشرافیہ اور نو زائیدہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے تھے۔

جب ملک میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو ظلم وجبر کی کہانیاں رقم ہونے لگیں جن میں سے ایک کہانی حسن ناصر کی بھی تھی جو تاریخ کے صفحات پر لہو سے رقم ہوگئی۔ ایوبی آمریت کے دور میں حسن ناصر روپوشی میں چلے گئے مگرکسی غدار نے اُن کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے مخبری کردی۔ اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ حسن ناصر کو بدتین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر انھوں نے اپنے نظریے سے غداری نہیں کی اور 13 نومبر 1960 کو جان کی بازی ہار گئے۔ دورانِ حراست جان کی بازی ہارجانے والوں کی موت کو جس طرح آج بھی خودکشی قرار دیا جاتا ہے اس وقت بھی حسن ناصر کی ہلاکت کے بارے میں یہی کہا گیا تھا۔

اُس وقت کے ایک سیاسی رہنما میجر ریٹائرڈ اسحق محمد نے مغربی پاکستان ہائیکورٹ میں حسن ناصر کی بازیابی کے لئے درخواست دائر کردی۔ جسے جسٹس ایم آر کیانی نے سماعت کے لئے منظور کرلیا۔ مگر پولیس حسن ناصر کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ یوں یہ خبر منظرِ عام پر آگئی کہ حسن ناصر شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ یہ تو ایک کہانی ہے جو منظرِ عام پر آگئی اور اس پر بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے۔

ایسی بے شمار کہانیاں ان سیاسی کارکنوں کی ہیں جنھوں نے مارشل لا کے خلاف اور جمہوریت کے قیام کے لئے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ خواہ اُن کا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے۔ دونوں بازو ایک ہی جسم کا حصہ ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کے لئے کسی بھی اچھی روایت کے قائم ہونے کے بعد اصل شکریے کے حقدار وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی قربانیوں سے اس معاشرے کو اس قابل بنایا کہ اچھی روایات قائم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اور ان روایات کا تسلسل بھی بہت ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے