محبت کے تقاضے

گزشتہ دنوں چترال سے آنے والے پی آئی اے کے جہاز کو پیش آنے والے حادثے نے پوری قوم کو ایک درد ناک اور المناک صورت حال سے دوچار کر دیا۔ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غم گداز ہے۔ مملکت خداداد کی 47 قیمتیں جانیں بے بسی کے عالم میں دار فانی کو کوچ کر گئیں ۔ سفر آخرت کو جانے والوں میں ایک جان جنید جمشید کی تھی۔

بظاہر ایک عام انسان اللہ کے تخلیق کردہ دوسرے انسانوں کی طرح لیکن اس کی شہادت نے ملک کے ہر طبقے اور ہر ذی شعور کے چہرے اور زبان پر ماتم درد و غم کے الفاظ کی لڑیاں پرو دیں۔ان کی شہادت پر شاید ہی ملک کے کسی طبقے نے غم گساری اور دل سوزی کا اظہار نہ کیا ہو۔ہر قلم کار اور ٹی وی کے ہر اینکر نے عظیم الشان انداز میں نذرانے اور خراج عقیدت پیش کیا۔شاید ہی کوئی ایسی درد مند اور عشق الہیٰ سے بھرپور آنکھ کو جس نے اس شفیق انسان کے غم میں دو آنسو نہ بہائے ہوں ۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے جنید جمشید کی عظمت کی گواہی دی ۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے اس عاشق صادق کی نیک نیتی اور اپنے مشن سے پر خلوص ہونے کے قصے سنائے ۔ اور کیوں نہ ہو ایسا کہ وہ انسان اس سے زیادہ کا حق دار تھا ۔ کیوں کہ جس ماحول اور طرز زندگی نے اسے شہرت کی بلندیاں عطا کیں ۔ اس سے کامل انکار اور بغاوت کر کے اللہ کے دین کی خدمات کے لئے اپنے آپ اور اپنے وسائل کو دل و جان سے وقف کر دیا ۔ یہ سرمایہ بے بہا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔ حق و صداقت کی راہ پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ راستہ اس پر چلنے والوں سے ہر وقت اور ہر مقام پر قربانیوں کا طلبگار رہتا ہے ۔ اور حق و صداقت کی راہ کی یہ نشانیاں اللہ کے پیغمبروں کی زندگی سے لے کر صحابہ کرام ، تابعین ، اولیاء اللہ اور داعیان حق کی زندگیوں میں بدرجہ اتم ہمیں نظر آتی ہیں ۔

اس کسوٹی پر جنید جمشید پورے اترے یا نہیں یہ تو اللہ ہی جانتا لیکن اکابر کی سنت پوری کرتے ہوئے قدم قدم پر آزمائے ضرور گئے ۔ اہل حق کے پیرو بن کر حق و صداقت کی مختصر سی زندگی میں بہت سےمصائب کا سامنا کرتے رہتے ۔ وہ محمد صل اللہ علیہ و اللہ وسلم کے ایک سچی سپاہی اور عشق محمد کے جذبے سے سرشار ایک سرگرم داعی دین تھے ۔ لہذا ان کی شہادت پر قوم کی ہر آنکھ کا اشک بار ہونا قوم کے ہر فرد کا حزیں ہونا اس کی شہادت کو ایک بڑا قومی نقصان قرار دینا ایک قدرتی اورفطری امر ہے ۔ آج جنید جمشید کی محبت میں ہر ٹی وی چینل پر اس کے حالات زندگی اور محبوب قصے بزبان یاراں سنائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز کہاں سے اور کیسے کیا قوم کو اس کی تفاصیل بتائی جاتی ہیں سوشل میڈیا پر کئی نامی گرامی اینکر اپنے ذاتی صفحات پر جنید جمشید کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے مداحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور زرد صحافت کی ستم ظریفی یہ کہ جس کام سے تائب ہو کر جنید جمشید اللہ کے دین کی راہ میں لگ گئے تھے ہمارا میڈیا اسی پہچان کو بڑھا چڑھا کر پچھلے تین دنوں سے پیش کر رہا ہے ۔ اگر بہت زور لگا کر ایک قدم آگے بڑھنا بھی چاہیں تو انہیں ایک نعت خواں کی حیثیت سے قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔

میری نظر میں یہ ہمارے میڈیا کی دانستہ یا نادانستہ ستم ظریفی اور جنید جمشید کے ساتھ ایک بہت بڑی ناانصافی ہے ۔ لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اس عاشق رسول اور خدا کے دیں کے جانباز سپاہی کے ساتھ ہمارا میڈیا اور عوام جو آج جنید جمشید کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے یہ کر رہے ہیں کہ جس مقصد اور جس مشن کے لئے جنید جمشید نے اپنی زندگی کی بازی لگا دی جس دین برحق کے لئے اس سچے سپاہی نے اپنی عیش و آرام بھری زندگی چھوڑ کر مشکلات و مصائب کا راستہ چنا ۔ جو ان کی زندگی کا واحد مقصد اور جنون بن گیا تھا ۔ جنید جمشید سے حقیقی محبت کے تقاضے کے طور پر اس کے مشن کو آگے بڑھانے کا نہ تو کہیں سے عہد کیا گیا اور نہ ہی شہادت کے بعد ان کے اس مشن سے جنون کی حد تک محبت اور اس کے لئے جنید جمشید کی دی جانے والے قربانیوں کا تذکرہ کہیں ٹی و ی سکرین کی زینت بنا۔ جنید جمشید ایک گلوکار نہیں تھا بلکہ دین حق کا ایک بے لوث سپاہی تھا ۔ وہ ایک پیشہ ور نعت خواں نہیں تھا بلکہ اپنے مشن کے بانی و رہبر محمد عربی صل اللہ علیہ و الہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر اپنی روح کو تسکین دینے اوراپنے آقا سے محبت کے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے مدح محمد میں نعت پڑھتا تھا ۔ وہ ایک مبلغ تھا ۔ نفرت و عداوت کے اس دور میں جہاں مذہب پرستوں نے دین کے حقیقی چہرون کو فتوں اور بغض سے دھندلا کر کے رکھ دیا ہے۔

جنید جمشید اپنے عمل اور محنت سے دین یثرب کے گرد وغباز سے اٹے ہوئے چہرے کو صاف کرنے اور اسے لوگوں کے قابل رشک بنانے میں سرگرم عمل تھالہذا ان سے محبت کا صیح تقاضہ یہی ہے کہ ہم ان کی شخصیت کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ان کے اس مشن کا تذکرہ اور اس کو آگے بڑھانے کی بھی بات کریں۔ جس مشن میں بعد از مرگ بھی جنید جمشید کو ہر دل کی دھڑکن اور ہر زبان کا ذکر بنا دیا ہےان سے ہماری نسبت اور محبت ان کے کردار اور عمل کی وجہ سے تھی اور رہے گی لیکن من حیث القوم شاید شخصیت پرستی کے حصار میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم نظریات، مشن اور مقصدیت کو اہمیت ہی نہیں دیتےاور شخصیات کا تذکرہ تو ہر جگہ چند دنوں کے بعد ختم ہو جائے گا ۔ یہی حال جنید جمشید کا بھی ہو گا اگر ہم ان سے محبت کے دعویدار ہو کر اس کے مشن کو اپنانے کا عزم کر لیں تو پھر وہ اپنے اس مشن کے حوالے سے ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے