میں آج آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں

ذیشان ہاشم

peshawar-blast-peepal-mandi

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بادشاہ تھا (اصل میں ہے ، مگر ہم فرض کرتے ہیں تھا) ، اس کے شاہی خاندان میں لاکھوں لوگ تھے جن کا گزربسر عوام کے ٹیکسز سے ہوتا تھا – ….یہ بادشاہ اس وقت تک بادشاہ تھا جب تک اس کی سلطنت کی ہمسایہ سلطنت سے لڑائی نہ تھی ….جیسے ہی یہ دشمنی دوستی میں بدلتی ، بادشاہ کی بادشاہت ختم ہو جاتی ، اور بادشاہ یہ نہیں چاہتا تھا ، وہ چاہتا تھا کہ یہ دشمنی ہمیشہ رہے اور یوں وہ بھی ہمیشہ کے لئے بادشاہ رہے –

بادشاہ کو عوام نے سر آنکھوں پر چڑھا رکھا تھا ، ان کے خیال میں بادشاہ اور اس کے شہزادے ان کی دشمنوں سے حفاظت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ، بادشاہ نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈال رکھی تھی کہ ساری دنیا ان کی دشمن ہے ، اور وہ انہیں ختم کرنا چاہتی ہے …ان کا صرف ایک دوست ہے اور وہ میں ہوں … اور باہر کی دنیا نے اس کی سلطنت میں اپنے ایجنٹس چھوڑ رکھے ہیں جو ملک و عوام کے دشمن ہیں ، اسی لئے بادشاہ سلامت ملک کے اندر اور باہر کے تمام دشمنوں سے اپنی عوام کی حفاظت کرے گا –

بادشاہ اور اس کے شہزادے ہمسایہ ریاست سے کئی بار لڑ چکے تھے اور ہر بار ہار چکے تھے …ایک بار تو سلطنت یوں دو ٹکڑے ہوئی کہ ایک ٹکڑا بادشاہ کے غدار غیر ملکی ایجنٹ لے اڑے …ان غداروں نے یہ ٹکڑا وہاں کی عوام کو منتقل کر دیا اور اب وہاں کسی بادشاہ کی نہیں بلکہ عوام کی حکومت ہے ….ہمسایہ ملک سے جنگ کا خطرہ بھی نہیں ….اور اب شہزادے بھی وہاں نہیں رہے ….

شکست خوردہ بادشاہ کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا کہ کیوں نہ اپنی عوام میں سے ایک خاص گروہ کو تیار کیا جائے ، اور ہمسایہ دشمن ملکوں میں انہیں گھسیڑ کر وہاں خانہ جنگی کروائی جائے اور خود سکون سے بیٹھ کر گنڈیریاں چوسی جائیں اور تخت و اقتدار کا مزہ لوٹا جائے …… بادشاہ کو ایک عجیب چسکا بھی تھا ، اس کا جب بھی موڈ ہوتا وہ عوامی نمائندوں کو بلاتا اور زور سے چلاتا

kneel (جھک جاؤ )

نمائندوں میں سے اکثریت کا مفاد جھک جانے میں ہوتا ، اس لئے سب دو زانو ہو کر جھک جاتے  ، جو حکم مالک …

جواب آتا ، کوئی حکم نہیں ، جاؤ خوب کھیلو ، مگر وفادار رہو

اور جب کبھی کوئی جھکنے سے انکار کر دیتا ، بادشاہ سلامت اس پر پہلے اس کے پیٹی برداروں کا حملہ کرواتے ….اگر یہ حملہ ناکام رہتا تو پھر غدار و باغی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جاتا …..رنگے ہاتھوں گرفتاری کے لئے ہاتھوں کا رنگیں ہونا بھی ضروری نہ تھا ، بادشاہ کے میر منشی لوگوں میں یہ خبر مشہور کر دیتے کہ جب پکڑا گیا ہاتھ رنگین تھے …عوام ان میر منشیوں کو اپنے ملک کا سب سے بڑا دانا ، زہین و فہیم سمجھتی تھی ،،،،جب وہ کہہ دیتے کہ ہاتھ رنگے تھے ، تو سب بول اٹھتے کہ ہاتھ رنگے تھے –

اب اس رنگین ہاتھ والے غدار و باغی کے پاس دو حل تھے ….

ہاتھ دھو لے یا ہاتھ کٹوا لے …

ہاتھ دھونے کے لئے کسی کرشماتی پانی کی ضرورت نہ تھی ….بادشاہ کے سامنے kneel جھک جانے سے ہاتھ دھل جاتے تھے ….کیسے دھل جاتے تھے ….میر منشی کہتے تھے کہ ہاتھ اب صاف ہیں اور یوں عوام بول اٹھتی کہ ہاتھ صاف ہیں ……

ہاتھ کٹوانا بہت مشکل تھا ، بادشاہ سلامت ہاتھ جڑ سے کاٹتے تھے …. ان کے خیال میں ہاتھ کی جڑ گردن میں ہے …. اور گردن مارنے کے لئے یا تو پھانسی دے دو یا پھر نامعلوم کی گولی کا شکار بنا دو –

دوستو ….بات ہو رہی تھی ، عوام میں سے ایسے سرفروشوں کی جو بادشاہ سلامت کے لئے دوسرے ملکوں میں جا کر خانہ جنگی کرنے اور کروانے کے لئے فیکٹریوں میں تیار کئے جا رہے تھے ….. ان فیکٹریوں کی تیاری میں بادشاہ سلامت کو ید طولی حاصل تھا ….بادشاہ سلامت نے اس فیکٹری کو چلانے کے لئے مینیجرز کی ایک پوری کھیپ بنائی … ان مینیجرز کی تعداد لاکھوں میں تھی … مزدور ہی یہاں کی پروڈکٹ تھی جسے دوسرے ملکوں میں بھیجا جانا تھا …. ان مزدوروں کو مینیجرز میٹھی میٹھی باتیں سناتے …ان کی جنسی آرزوں کو ابھار کر ان سے وعدہ کیا جاتا کہ بہتر تہتر خوبصورت "سنی لیونے” تمہارا انتظار کر رہی ہیں …. تمھارے لئے زمینوں کے مربعے مختص ہیں جن میں ہر طرح کی عیاشی ہے ، دودھ و شہد کی نہریں ہیں ….. ہر طرح کے پھل ہیں ….. اس سالے روزگار کے لئے جدوجہد کی بھی ضرورت نہیں ہو گی …. اور تو اور وہاں نو عمر لڑکے (غلمان ) بھی ملیں گے ، جن سے سب کچھ جائز ہو گا ….

وہ بے چارے کچے ذہن جو ان مزدوروں کے تھے بار بار کی مینیجرز کی تقریر و تحریر کی زد میں آ کر دوسرے ملکوں میں جا کر پھٹنے لگے یا پھاڑنے لگے ….جیسے ہی یہ فیکٹری چل پڑی ، اس کے مال کی دھوم ہر طرف مچ گئی ….پہلے اسے سپر پاور نے خریدا اور اس سے اپنے سب سے بڑے دشمن کو پھاڑا … اور بادشاہ نے بھی سپر پاور کی دیکھا دیکھی اپنے دشمنوں کو پھاڑنے کے خواب زور و شور سے دیکھنا شروع کر دیئے –

مگر ایک عجیب نتیجہ برآمد ہوا ….بادشاہ سلامت کا چونکہ فیکٹری کے مینیجرز پر دست شفقت تھا ، مینیجرز پھدکنے لگے ، ملک میں اٹھکیلیاں کرتے ، کسی کو خاطر میں نہ لاتے ، اور پوری سلطنت کے بیس کروڑ کو اپنا مزدور سمجھنے لگے …..انہوں نے کچھ مزدور اپنے پاس اپنے اردگرد رکھ لئے اور کچھ کو دشمن ملکوں میں دشمنوں کو پھاڑنے کے لئے بدستور بھیجنا جاری رکھا …..ان مینیجرز کی عادتیں بھی بادشاہ سلامت جیسی تھیں ….وہ چلاتے kneel (جھک جاؤ ) ، عوام دو زانو جھک کر ان کی مالا جپھتی …. اور جو جھکنے سے انکار کر دیتا ، اس پر یا تو بلاسفیمی کا الزام لگ جاتا ، یا پھر نامعلوم (جو اصل میں فیکٹری کے معلوم مزدور تھے ) جب چاھتے اس کا ٹینٹوا بجا دیتے …..

یہ سلسلہ چلتا رہا ، بادشاہ سلامت حکومت کرتے رہے ، مینیجرز کی چودراہٹ قائم رہی ….. مزدور دوسرے ملکوں میں جا کر پھٹتے رہے …مگر ان احمق مزدوروں نے اپنے ناخلف مینیجرز کے حکم پر سپر پاور میں جا کر ایک بڑی عمارت میں پھٹنے کا کرتب دکھا دیا ….. اب منظر بدل گیا …سپر پاور نے بادشاہ سلامت سے چیخ کر کہا ، کیا تو میرے ساتھ ہے ؟

بادشاہ سلامت منمنائے ….میرے مائی باپ ، میں آپ کے ساتھ ہوں …مگر جہاں آپ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ زمین "خاص ہے ترکیب میں ” …..

سپر پاور چلایا ….. میرے صحن میں تین ہزار لاشیں پڑی ہیں ، اور تو مجھے خاص ہے ترکیب سمجھا رہا ہے ….. بتا میرے ساتھ ہے کہ نہیں؟

وہ بادشاہ سلامت جو اپنی بیس کروڑ رعایا کے سامنے شیر تھا اب گیدڑ بنا منمنا رہا تھا …جہاں پناہ ، میرے ماں باپ آپ پر قربان

اور یوں فیکٹری کے مال کی ایکسپورٹ پر آہستہ آہستہ پابندی لگتی گئی اور سارا کا سارا مال اپنے ملک میں ہی اکٹھا ہونے لگا ….اس مال کو تو بس پھٹنا اور پھاڑنا آتا تھا …. اور یوں مینیجرز اور مزدوروں نے اپنے ملک میں شیعہ اور اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا ، اور مزدوروں نے جا کر پھٹنا شروع کر دیا …..پھر مینیجرز نے عوام کو منتخب کیا کہ یہ کیوں میرے آگے دل سے نہیں جھکتے ، یوں مزدوروں نے عوامی مقامات پر بھی جا کر پھٹنا شروع کر دیا …..مینیجرز کو اپنے ہم وطنوں کے خون کا ذائقہ بہت پسند آیا ، اور انہوں نے شہزادوں کو بھی پھاڑنا شروع کر دیا –

اس وقت تخت پر ایک ایسا بادشاہ حکمران تھا جسے اس کے شہزادے بھی باجی کہتے تھے …..اس نے اپنی عمر یہ سوچنے میں گزار دی ، کہ ایک طرف شہزادے ہیں دوسرے طرف "اپنے بچے ” ہیں …..کس کو فوقیت دوں ؟ …..

عوام مرتے رہے ، تڑپتے رہے …مزدور پھٹتے رہے کیونکہ انہیں جلدی بھی بہت تھی کہ ترنت جائیں اور اپنی مزدوری حور و غلمان کی صورت میں وصول کریں …. مینیجرز باجی بادشاہ کو کہتے رہے ، ہم تو آپ کے بچے ہیں ….عوامی نمائندے بدستور kneel (جھکے ) رہے ، جس نے سر اٹھانے کی کوشش کی انہیں مینیجرز نے بذریعہ مزدور پھاڑ دیا ….

اور پھر باجی بادشاہ کے جانے کے بعد ایک نیا بادشاہ آیا ، کچھ لوگوں کو اس کی مونچھ میں مخفی کوئی راز نظر آیا ، کسی نے اس کی سپر پاور کے دیس میں لکھی تحقیقات پڑھ کر بڑھک ماری یہ پہلے والوں سے مختلف ہے …… نئے بادشاہ نے آتے ہی آواز دی ….kneel (جھک جاؤ )

سب جھک گئے مگر کچھ عوامی نمائندوں نے انکار کیا …انکار کی گستاخی پر الماڑی سے ایک مسخرہ نکالا گیا ، اس نے ایسا شو کیا کہ عوامی نمائندوں کو نانی یاد آ گئی اور پھر باقی عوامی نمائندے بھی جھک گئے –

نئے بادشاہ نے ترنت فیصلہ کیا کہ اسے ناجائز بچے نہیں بلکہ پورے کا پورا شاہی خاندان (شہزادے ) عزیز ہے ، اور ہاں حکومت کرنے کے لئے رعایا بھی ….یوں ناجائز بچوں کو تلف کرنے کا کام شروع ہوا … فیکٹری روک دی گئی ، اس کی مشینری ابھی بھی قائم ہے کہ بوقت ضرورت پھر کام آوے …..

میر منشیوں نے ہر بادشاہ سلامت کے حضور کورنش بجا بجا کر اپنی کمر میں مستقل خم ڈال دیئے ، اب انہیں یاد ہی نہ رہا تھا کہ کیسے کھڑا ہوا جاتا ہے ، اب جھکی کمر ہی انہیں فطری حالت لگتی تھی ….

اور عوام تالی بجا رہی ہے کہ اپنے ناجائز بچوں کو تلف کر کے بادشاہ سلامت نے عظیم ترین کارنامہ سرانجام دیا ہے …….. مگر اس دیس میں دوستو آزادی، حریت ،بہترین مستقبل کے امکانات ، اور انسانیت کسی زندان میں جکڑی کراہ رہی ہے مگر عوام کو اس سے پیار نہیں کیونکہ پیوستہ مفاد کے سب بت تراشوں نے غلامی کی نفسیات کو ہی فطرت بنا ڈالا ہے –

 

ذیشان ہاشم فری لانس رائیٹر ہیں، سوشل سائنسز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور لبرل ہونے پر فخر کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے