پیپلز پارٹی کا اصل امتحان

ستائیس دسمبر کو پتہ چلے گا بھٹو زندہ ہے یا نہیں۔۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے چار مطالبات منوانے کیلئے ستائیس دسمبر دو ہزار سولہ کی حکومت کو ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔۔لیکن یہ ڈیڈ لائن تب دی گئی جب عمران خان اسلام آباد کے لاک ڈاون کی تگ و دو میں تھے۔۔شاید پیپلز پارٹی کوخوش فہمی تھی کہ ایک طرف سے تحریک انصاف چڑھائی کرے گی اور دوسری جانب سے پیپلز پارٹی دباو بڑھائے گی تو آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا اثر رنگ لائے گا اور حکومت پیپلز پارٹی کے مطالبات مان جائے گی۔۔۔ویسے پیپلز پارٹی کے مطالبات کوئی انہونے بھی نہیں تھے کہ ان پر عمل نہ کیا جاسکے ۔۔ مگر نو از شریف کی حکومت کی ضد ی پالیسی کی وجہ سے ملک کو ایک اور احتجاج کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جوچارمطالبات پیش کئے۔۔ ان میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ سی پیک سے متعلق آصف زرداری کی قرارداد پر عمل کیاجائے۔ دوسرا مطالبہ کیاکہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی ازسر نوتشکیل دی جائے۔ تیسرا پیپلزپارٹی کاپانامالیکس سے متعلق بل منظورکیاجائے۔ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ فوری طور پر ملک کا وزیر خارجہ لایا جائے۔ ۔آئیں بیٹھیں بات کریں۔ حکومت نے پیشکش ضرور کی مگر بیٹھنے کا ماحول نہیں بنایا۔۔ شاید اس لئے بھی کہ حکومت چاہتی ہے جیسے تحریک انصاف دس لاکھ لوگ اسلام آباد لانے کے دعوے کو سچ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور لاک ڈاون بھی نہ ہوا۔۔۔ ایسے ہی پیپلز پارٹی کو بھی موقع دیا جائے تاکہ وہ بھی عوامی طاقت آزما لئے۔۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ عمران خان کے ناکام احتجاج نواز شریف کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔اب کی بار خود ان کا امتحان آن پہنچا ہے۔ستائیس دسمبر آ گئی ہے اور دما دم مست قلندر کے دعوے کرنے والوں نے ابھی تک لانگ مارچ کا کوئی پروگرام نہیں دیا۔۔کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔۔ ہاں تقاریر ، دعووں اور زبانی جمع خرچ کاعمل جاری ہے۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی واقعی عوامی
طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے یا پھرآصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی ڈیڈلائن میں توسیع یا نیا پینترا بدلتی ہے۔۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک میں بلاول بھٹو زرداری اور خورشید شاہ چار مطالبات چار مطالبات کہتے نہیں تھک رہے اور دھمکا بھی رہے ہیں کہ حکومت کو اب پتہ چلے گا کہ عوامی تحریک کیا ہو تی ہے ۔۔

دوسری جانب آصف زرداری نے پاکستان پہنچنے کے بعد پہلی تقریر میں میاں نواز شریف پر ہوائی فائرنگ بھی نہیں کی۔۔ مطالبات یا تحریک کا ذکر بھی نہیں آیا۔۔

پیپلز پارٹی کوعوامی طاقت کا مظاہرہ اسلام آباد میں یا پنجاب میں کرنا ہے۔۔لیکن حالیہ ریکارڈ بتارہاہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔۔پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے بھی پیچھے رہی ہے۔۔ کئی جگہووں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں۔۔ اس کے باوجود یہ زعم ناقابل فہم ہے ۔۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کیسے عوامی طاقت سے حکومت کو خائف کرے گی۔۔قمرزمان کائرہ کو تو پنجاب میں ابھی ابھی ذمہ داری ملی ہے اور ممکن ہے گجرات میں وہ اپنا اثر رسوخ دکھا بھی دیں۔ ۔۔ مگر یہاں تو حکومت کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے مضبوط مقبولیت اور مضبوط مسل کی ضرورت ہے۔۔ جوبادی النظر میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔۔ اور اگر پیپلز پارٹی کا عوامی طاقت کا مظاہرہ بھی پی ٹی آئی والوں کی طرح رائیگاں چلا گیا تو پیپلز پارٹی کا مان یقینا ٹوٹے گا ۔۔

اسی لئے ستائیس دسمبر بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا بھٹو زندہ ہے ۔۔۔ یا فیر گلاں ہی بنڑیاں نیں ۔۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور بالخصوص بھٹو خاندان کی تاریخ ملک کیلئے قربانیوں کی سنہری داستان ہے۔۔ مگر یہ بھی بد قسمتی دامن گیر ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان قربانیوں کے بعد کوئی خاطر خواں تیر نہیں مارے۔۔ پیپلز پارٹی آج بھی ماضی پرستی کی دلدل میں پھنسی ہے۔۔تھوڑ ی دیر بھٹو خاندان کا حوالہ نہ دیں تو پیپلز پارٹی کے دامن میں سوائے کرپشن الزامات کے اور کچھ نہیں بچتا۔۔۔بلاول بھٹو زرداری نکلے تو قوم کو انصاف دلانے اور رہنمائی کرنے مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ خود پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں جس میں خود آصف زرداری بہت مضبوط رہے مگر اپنی اہلیہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل کرنے میں عدم دلچسبی دکھائی۔۔بے نظیر بھٹو کیس کا پراسیکیورٹر تک قتل ہو گیا۔

تحریک کی ڈور سینیٹر اعتزاز حسن کے ہاتھ میں ہوتی تو اس بات کا امکان تھا کہ وہ کارکنوں کا لہو گرماتے ۔۔ بلاول بھٹو زرداری تو خود بے سمت منزل کا مسافر ہے۔۔ فیصلے کرنے کیلئے ذہنی پختگی اور سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔۔ بلاول بھٹو زرداری تو ابھی تک دوست دشمن کا فیصلہ بھی نہیں کرسکے۔۔ پہلے مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگاتے تھے۔۔۔پھر پانامہ لیکس پر بولتے رہے ۔۔ ایسے میں کسی نے سوال کیا کہ آپ نواز شریف کو غدار کہہ رہے ہیں تو وہ لاجواب ہو گئے۔۔ وضاحت یوں کی ۔۔ میں ملک کے وزیراعظم کو غدار کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔ او بھائی اگر آپ وزیراعظم کا نہیں کہہ رہے تھے توپاکستان میں اور کون ہے مودی کا یار ؟۔۔ مودی کس کے گھر شادی پہ آیا تھا۔۔مودی کی ماں کیلئے تحائف کدھر سے گئے تھے ؟ ۔۔ بنارسی ساڑھیاں کہاں سے کس کیلئے آئی تھیں۔۔وہ تو وزیر خارجہ لگانے سے ہی اس لئے گریزاں ہیں کہ وہ مختلف ممالک کے سربراھان کے ساتھ ذاتی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔۔

وزرائے خارجہ اپنی سوچ میں باغی ہو جاتے ہیں۔۔ یہ منصب ہی ایسا ہے یہاں بیٹھ کر لوگ خود کو ملک کا نمائندہ تصور کرنے لگتے ہیں اور
پھرفیصلے کرتے وقت ذات کو بیچ میں نہیں لاتے۔۔پیپلز پارٹی کو تو ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ محمود قریشی کی مثالیں یاد ہوں گی ۔۔ اب میاں صاحب کیوں رسک لیں ؟ وزیرخارجہ بنا دیا تو وہ تو شہباز شریف کو ساتھ چین لے کر کون جائے گا ؟ ترکی حکمران خاندان سے ذاتی تعلقات پنپ سکیں گے؟۔۔پھر برے وقت میں کون مدد کرے گا ؟
پیپلز پارٹی بھی ایک کوشش کر کے دیکھ لے ۔۔

بظاہر تو یہی نظر آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی عوامی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کی بجائے خود ایکسپوز ہو جائے گی۔۔مگر ہماری دعا ہے کہ اللہ کرے ایسا نہ ہو ۔۔ پیپلز پارٹی اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائے۔۔ اگر پیپلز پارٹی بھی ناکام ہو گئی تو مسلم لیگی حکمران پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائیں گے لیکن اب کی بار یہ مدد عمران خان نہیں بلکہ خود خورشید شاہ کریں گے جن کا یہ موقف رہا ہے کہ ناکام احتجاج نواز شریف حکومت کو مضبوط کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے