اسلام آباد سے ’گلگت‘ پر دو ’حملے ‘

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے یکے بعد دیگرے دو ’حملوں‘ نے گلگت بلتستان کے سیاسی صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا اور دسمبر کے مہینے میں اچانک سیاسی ماحول گرماگرم ہوگیا ایک حقیقتاً حملہ جبکہ دوسرے کا تعلق ان مسائل سے ہے جسے ہر شخص اپنی مرضی کی عینک سے دیکھ سکتا ہے ۔ایک کا تعلق نفسیات اور خواہشات سے جبکہ دوسرے کا تعلق سماج اور معاشرے سے ہے بدقسمتی سے نفسیات اور خواہشات کی رپورٹ نے سماج اور معاشرے کی رپورٹ کو یکسر دبادیا اور پوری توجہ سماج اور معاشرے سے غافل ہوکر نفسیات اور خواہشات پر پہنچ گئی ۔

پہلا حملہ اسلام آباد لوک ورثہ میں ثقافتی پروگرام میں خواتین کا ناچ اور دوسراحملہ بعض ممبران جی بی اسمبلی و کونسل کے ویمن ٹریفکنگ میں ملوث ہونے کی خبر تھی جسے ایک قومی انگریزی اخبار نے بریک کی تھی۔

اگر ویمن ٹریفکنگ کی رپورٹ پر غور کیا جائے تو چند دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں سب سے اہم بات تو یہ کہ اس خبر کے باقاعدہ سوشل میڈیا اور میڈیا میں طویل بحث مباحثے کے بعد قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے اجلاس میں اس بات پر مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی اپنے بزنس کو پورا کرنے اور مطلوبہ دورانیہ کو پور ا کرنے کے لئے یوں ہی اسمبلی اجلاس طلب کیا گیا ۔

پوری اسمبلی میں حکومتی بینچ کی جانب سے ایک بھی ایسی بات سامنے نہیں آرہی ہے جس پر کچھ سوچا، لکھا یا بولا جائے ۔ تمام حکومتی ممبران اس بات پر غور و فکر کرتے ہیں کہ کیپٹن (ر) محمد شفیع ’ٹاس ‘ جیت کر اسمبلی کیسے پہنچ گئے ہیں ۔ جی بی اسمبلی کے 13ویں اجلاس میں جو چیزیں معنی خیز تھی وہ سپیکر فدا محمد ناشاد کا خطاب تھا جس میں انہوں نے تمام وزراءکی سختی سے سرزنش کی بلکہ سخت ترین پارلیمانی الفاظ میں انہوںنے وزراءکی غیر زمہ دارانہ رویہ کی نوٹس لی ۔

انہوں نے کہا کہ وزراءکی اسمبلی اجلاس میں غیر حاضری ان کی غیر زمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ ہے اگر وزراءاسمبلی میں نہ آئیںگے تو ان کے محکموں کے حوالے سے سوالات کا جواب کون دے گا ۔ ۔

اسمبلی میں ہونے والے اہم فیصلوں سمیت اسمبلی کی رولنگ پر حکومت عملدرآمد کرانے سے قاصر ہے ۔ ۔۔۔ دھیمے مزاج کے سپیکر فدا محمد ناشاد کی جانب سے وزراءپر اتنے سخت الفاظ یقینا لمحہ فکریہ ہے ۔۔۔ اور اسمبلی کی دوسری معنی خیز بات ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان کی جانب سے تھی جس پر انہوںنے اس بات کی طرف اسمبلی کی توجہ مبذول کرائی کہ سرکاری اداروں میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے سرکاری اداروں کو جتنی بھی ٹھیک کرنے کی کوششیں کررہے ہیں وہ سارے بے سود جارہے ہیں ایک ہی سٹیشن پر 3سال سے زائد ڈیوٹی دینے والے اہلکار نظام تباہ کررہے ہیں ۔

ڈپٹی سپیکر کی جانب سے سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوال اور اسمبلی کی توجہ مبذول کرانا بھی یکطرفہ طور پر حکومتی وزراءکے خلاف جاتا ہے ۔۔۔ دو اہم قراردادیں پاس کی گئی ان میں ایک قرارداد تاحیات اپوزیشن ممبر نواز خان ناجی کی جانب سے تھی جس میں انہوںنے مطالبہ کیا کہ ریاست اور حکومت مقامی روایات اور قوانین کا احترام کریں جسے منظور کیا گیا جبکہ دوسری ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان کی جانب سے جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنے کے لئے قرار داد تھی ۔۔۔۔

بہرحال اسمبلی اجلاس میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن تحریک التواجمع کراکے ٹریفکنگ کے معاملے پر بحث کی کی درخواست کرتی ۔اپوزیشن کو اس بات کا بھی علم ہے کہ حکومتی کمیٹیوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے لیکن ’داڑھی میں تنکا‘ کے مانند وہ خاموش رہے ۔۔۔۔۔

ویمن ٹریفکنگ کے مسئلے پر ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس کہانی نے ان احباب کے آنکھوں سے بھی پٹی ہٹادی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اخبارات کو پابند کیا جائے تو مسائل بیٹھ جائیںگے جبکہ ٹریفکنگ کی خبر ایک ایسے اخبار میں چھپی جو کہ کبھی گلگت بلتستان آیا ہی نہ ہوگا لیکن سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور وٹس ایپ نے ساری عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ۔۔مقامی کسی اخبار میں اس خبر کی تصدیق یا کوئی کسی قسم کا فالو اپ نہیں چل سکا ۔۔۔۔ اس خبر کو حقیقی اپوزیشن (جو کہ اسمبلی سے باہر ہے خصوصاً پیپلزپارٹی) نے بھرپور طریقے سے ایشو بنایا جس کا نوٹس بذات خود وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی لیا اور سپیکر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی اب تک کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے ۔۔

۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر سزایافتہ مجرم ہی ٹھہرایا جائیگا ۔۔۔ اگر کسی بھی رکن اسمبلی یا کونسل کا نام سامنے آگیا تو اس کا اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ بھی ناممکن ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔اس ساری کہانی سے مجھے سعادت حسن منٹو کا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ ’میرے شہر کے طوائفوں کو میرے شہر کے معززین ہی جانتے ہیں‘۔۔۔

دوسر ا اہم ’حملہ ‘یعنی ایشو جو اسلام آبا د سے اٹھ گیا تھا وہ اسلام آباد لوک ورثہ میں گلگت بلتستان کا ثقافتی پروگرام تھا اور پروگرام میں علاقائی رقص پیش کرنے کی وجہ سے اخباری بیانات اور ہوٹلوں ،مارکیٹوں میں بحث شروع ہوچکی تھی بلکہ اخبارات میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی موجودگی میں خواتین کے رقص پر سوالات اٹھائے گئے جس میں بعض صحافی بھی پیش پیش تھے اگر درج اول ایشو نہیں اٹھتا تو یقینی تھا کہ یہی ایشو زیر بحث رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔۔

ثقافتی پروگرام میں راقم کی خواہش تھی کہ اس دوران ہی کچھ لکھنے کی جسارت کرے لیکن یکدم معاملہ دب گیا۔۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے کلچر یعنی ثقافت کو سرے سے دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔گلگت بلتستان کا شمار پاکستان بلکہ دنیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جن میں شروع سے ہی ثقافت کا رنگ غالب رہا ہے تاہم پاکستان کے قیام اور خصوصاً ضیاءالحق کے دور حکومت میں ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کا کلچر مذہب کے عینک تلے آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ غیر فطری تقسیم ہے جس نے گھروں کو ،محلوں کو اور آبادیوں کو تقسیم کیا ہے ۔۔۔ گلگت بلتستان میں میرے علم کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے اپنی تحقیق کے بعد مذہب میں شمولیت اختیار کی ہو۔۔۔۔ وہ پیدائشی طور پر ایک روایت کے زیر آکر اپنے زاتی فیصلے سے ہٹ کر والدین کے فرقے میں ’انٹری ‘کرائی جاتی ہے ۔۔۔۔جس فرقے کا بھی ہو بلکہ جس مذہب کا بھی ہو اس میں اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ یہاں کا پیدائشی گلگت بلتستان کا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔اور قانون ساز اسمبلی میں نواز خان ناجی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں بھی علاقے کے کلچر کا لحاظ اور تحفظ کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔اگر کلچر کو مذہب کے عینک سے نہ دیکھا جاتا تو شاید آج سیاسی و سماجی صورتحال بھی اس علاقے کی یکسر تبدیل ہوجاتی ۔۔۔۔۔

زاتی طور پر ایک مذہبی شخصیت سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ چلے اگر یہ مان لیا جائے کہ خواتین کے ناچ کا تعلق جی بی کے ’پاکیزہ ‘ کلچر سے نہیں ہے تو آپ نے بذات خود کتنی بات کلچرل پروگراموں میں حصہ لیا ہے ۔۔۔۔۔

اسلام آباد میں لو ک ورثہ میں چند ایک نامعلوم خواتین نے گلگت بلتستان کے کلچر کو پیش کرتے ہوئے علاقائی رقص پیش کیا۔۔۔۔ اس رقص پر گلگت بلتستان کے مذہبی ’پیالی میں طوفان ‘ آگیا ۔۔۔۔صاحبان کی جانب سے سخت قسم کے بیانات سامنے آگئے کہ ’حافظ ‘حفیظ الرحمن کی موجودگی میں جی بی کے کلچر کے نام پر بیہودگی اور بے حیائی پھیلائی گئی اور بیانات اتنے سخت تھے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے وضاحتی بیان آگیا کہ خواتین کا رقص میرے جانے کے بعد پیش کیا گیا ۔۔۔۔۔

۔گویا وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے بھی اس بات اعتراف کر لیا کہ ’ناچ‘ کا گلگت بلتستان کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں اور خصوصاً خواتین کے ناچ سے ۔۔۔۔ وزیراعلیٰ صاحب بذات خود اپنے بیانات کے آئینے میں علاقے کے کلچر کو پروموٹ کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں اور پہلی بار ان کے اعلان کے مطابق کلچرل ڈے بھی منایا گیا لیکن اس اخباری بیانات کے دباﺅ میں آکر وزیراعلیٰ صاحب بھی مڑگئے ۔۔۔۔۔

دونوں ایشوز کو دیکھا جائے تو میرے نزدیک کلچر کا ایشو زیادہ حساس ہے اس ایشو پر اٹھنے والے اعتراضات نے لبادے میں علاقے کو تباہ کردیا ہے ۔۔۔ حیرت کی بات تو ہے کہ کلچرل پروگرام پر بھی ’پاکیزہ‘ مذہبی جماعتیں اپنا موقف دیتی ہے ۔۔۔۔ مغربی روایات اور مغربی طرز سے تنگ نظر(بظاہر) آنے والے لوگ اس کے باوجود مغربی آلات کا استعمال کرتے ہوئے پروموشن میں مصروف ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے