‘شامی حکومت اور باغیوں میں جنگ بندی کا معاہدہ’

حلب: شام کی حکومت اور باغیوں کے مختلف گروپ مذاکرات میں کامیابی کے بعد ملک بھر میں جنگ بندی پر متفق ہوگئے۔

روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے بتایا کہ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد 29 دسمبر کی رات 12 بجے سے ہوگا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی گروپ کو داعش اور فتح الشام کی طرح ‘دہشت گرد’ گروپ تصور کیا جائے گا۔

جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کیا جبکہ اس معاہدے کی تصدیق ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی کی۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے معاہدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘شامی حکومت اور اپوزیشن کے اہم دھڑوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا ہے اور فریقین نے امن مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے’۔

جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اب روس اور ترکی نے شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان امن مذاکرات شروع کرنے کی کوششیں شروع کری ہیں جو کہ ممکنہ طور پر قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہوں گے۔

روسی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘شام میں موجود روسی فوجیوں کی تعداد کو بھی کم کیا جائے گا جو وہاں فضائی کارروائیوں میں مصروف ہیں’۔

پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ روس شام میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری رکھے گا اور شامی حکومت کے لیے اپنی حمایت برقرار رکھے گا۔

ملک گیر جنگ بندی کے اس معاہدے میں روس اور ترکی باغیوں کی جانب سے ضامن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے کی باغیوں کے کئی گروپوں نے تصدیق کی ہے مگر بعض حلقوں نے جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کی ہے۔

دوسری جانب شامی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم داعش اور ‘الفتح الشام فرنٹ’ جسے النصرۃ فرنٹ بھی کہا جاتا ہے وہ اور اس سے وابستہ گروپس اس جنگ بندی معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی اپنی رپورٹ بتایا ہے کہ شام کی فوج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ روس اور ترکی کی ثالثی میں شامی فوج اور باغیوں کے درمیان قومی اتحاد کے تحت جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا۔

شام کے سرکاری ٹی وی پرجاری کیے جانے والے شامی فوج کے بیان کے مطابق مسلح باغیوں کے جنرل کمانڈ نے 30 دسمبر کے شروع ہوتے ہی شام کی حکومت کے زیراثر علاقوں سے نکلنے کا اعلان کیا ہے۔

بیان کے مطابق باغیوں کے جنرل نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ داعش اور فتح الشام کے خلاف بھی حملے روک دیے گئے ہیں۔

دوسری جانب ترکی میں مقیم باغیوں کی قومی اتحاد کے رکن احمد رمضان نے بھی جنگ بندی کے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے معاہدے کی حمایت کی اور تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ معاہدے پر عمل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے طاقتورترین گروپ احرار الشام سمیت آرمی آف اسلام کے دھڑوں نے بھی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل رواں ماہ ترکی اور روس کی ثالثی پر حلب میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت باغیوں اور عام شہریوں کو حکومتی کنٹرول کے زیر اثر علاقوں سے باحفاظت نکلنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس سے قبل رواں برس ستمبر میں بھی باغیوں اور حکومت کے درمیان ایک ہفتے سے زائد کے وقت کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جب کہ رواں برس فروری میں بھی جنگ بندی کا ایک معاہدہ امریکا اور روس کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ شام کی خانہ جنگی میں ترکی اور روس ایک دوسرے کے مخالف ہیں، ترکی شام کے صدر بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ روس اور ایران بشار الاسد کے حمایتی ہیں۔

تاہم گزشتہ چند ماہ سے روس اور ترکی نے شام کے معاملے پر تعاون کو بڑھایا ہے اور رواں سال دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آنے والی بہتری کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔

گزشتہ ہفتے روس کے حمایت یافتہ بشار الاسد کی افواج نے حلب کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جو 5 سالہ خانہ جنگی میں شامی فوج کی سب سے بڑی کامیابی تھی تاہم ترکی اس معاملے پر مکمل طور پر خاموش رہا تھا۔

شام میں تقریباً 6 سال سے جاری خانہ جنگی میں 4 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اس دوران شام میں جنگ بندی کے کئی معاہدے ہوئے لیکن کوئی بھی دیر پا ثابت نہ ہوسکا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے