80ء کی دہائی کی بات ہے روسی فوج افغانستان سے نکل رہی تھی۔ دنیا کی سپر پاور کو افغانستان میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جو مجاہدین افغانستان میں روسی فوج کے خلاف برسرپیکار تھے انہیں انگیج کرنے کیلئے کسی اور محاذ کی ضرورت تھی۔ اس وقت کے حکمرانوں نے انہیں کشمیر میں انگیج کرنے کا سوچا مگر سیاسی و عسکری ونگز گومگو کی کیفیت میں تھے کہ کشمیر کے مسئلے پر سفارتی محاذ پر کام کیا جائے یا عسکری محاذ پر ، جماعت اسلامی سفارتی محاذ پر کام کرنے کا سوچ رہی تھی۔ سیاسی جماعتیں ابھی کسی فیصلے پر پہنچ نہیں سکی تھی کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے 88ء میں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا، لبریشن فرنٹ کی طرف سے پہلا حملہ ڈی آئی جی رینک کے ایک پولیس آفیسر علی محمد وٹالی پر ہوا، اس حملے میں علی محمد وٹالی تو بچ گیا مگر اس کے محافظ مارے گئے۔
لبریشن فرنٹ کی مسلح تحریک شروع ہونے کی دیر تھی کہ کشمیر کی چھوٹی بڑی سیاسی و عسکری جماعتیں اس تحریک میں شامل ہو گئی ، تحریک اپنے زوروں پر تھی کہ ان میں آپسی اختلافات شروع ہوئے جو ازاں بعد شدت اختیار کر گئے ، ضرورت محسوس ہوئی کہ تمام سیاسی و جہادی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے، کل جماعتی حریت کانفرنس کے نام سے ایک پلیٹ فارم کے نیچے ان جماعتوں کو متحد کیا گیا، اس تحریک کے دوران مقبوضہ کشمیر سے بہت سے لوگ کسمپرسی کے عالم میں ہجرت کر کے پاکستان آئے، ہجرت کرنے والوں میں سیاسی و عسکری ونگز کے سرکردہ لوگ بھی شامل تھے۔ ہندوستان نے تحریک کو کچلنے کیلئے کشمیری لیڈروں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے اور انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا۔
92سے 94ء تک دنیا کا رابطہ کشمیریوں سے مکمل طور پر کٹ گیا، ہندوستان انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو کشمیر کے اندر تک رسائی دینے سے انکاری تھا۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنے اور پاکستان میں مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس شاخ میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی تمام چھوٹی بڑی سیاسی و عسکری جماعتوں کے لوگوں کو نمائندگی دی گئی جو اُس پار اپنی جماعتوں کے لیڈران کو جواب دہ تھے ۔کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے لیڈر بیرون ملک سفر کرتے اور مختلف فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے، کچھ عرصے تک کل جماعتی حریت کانفرنس اچھے کام کرتی رہی پھر اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد حاوی ہوا تو یہ شاخ اپنے مقاصد سے ہٹ گئی۔ مالی خرد برد ، اقرباء پروری کی رپورٹیں منظر عام پر آنے لگی تو کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے، مختلف یونیورسٹیوں کی اسکالر شپ فروخت کرنے کے الزامات لگنے لگے ، ہم نے اس بابت تحقیق کی تو ان الزامات میں حقیقت پائی۔
گزشتہ روز ہماری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جس کا خاندان 92 میں ہجرت کر کے پاکستان آیا، اس نوجوان نے بی بی اے کی ڈگری اچھے نمبروں سے لے کر اسکالر شپ کے میرٹ پر اترا، اس کا کہنا تھا کہ اپنی تعلیمی اسناد لے کر حریت کے دفتر میں گیا، وہاں بیٹھے شخص نے میرے کاغذات رکھ لیے اور مجھے کام ہو جانے کی نوید سنا کر رخصت کر دیا، 3 ماہ کے بعد مجھے کہا گیا کہ کسی اور لڑکے نے آپ سے زیادہ نمبرز لیے اور اسکالر شپ اسے دے دی گئی، نوجوان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے طور پر تحقیق کی تو مجھے پتہ چلا کہ میری اسکالرشپ فروخت کی گئی اور میں کچھ نہ کر سکا سوائے اپنے اخراجات پر پوسٹ گریجویٹ ڈگری لینے کے۔
2010ء میں حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کا ایک سرکردہ لیڈر لندن کے دورے پر جاتا ہے ، جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو سر چھپانے کیلئے اس کے پاس جگہ نہیں ہوتی وہ میرپور سے تعلق رکھنے والی ایک متمول خاندان کے ہاں ٹھہرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں جو لوگ شہید ہوتے ہیں ان کے خاندان کی کفالت کرنے کیلئے ایک این جی او رجسٹرڈ کرواتا ہے، انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار لندن میں مقیم کشمیری خاندانوں کی خواتین اپنے زیور تک اتار کر دے دیتی ہیں ، صاحب ثروت لوگ زکوٰة ، صدقات اور خیرات کی مد میں کثیر رقم اس یقین کے ساتھ ان کے حوالے کرتے ہیں کہ یہ صحیح معنوں میں حق دار لوگوں کو ملے گی ۔ 2010ء سے لے کر 2016ء تک انہوں نے کشمیریوں کی مدد کی یا نہیں لیکن لندن میں 3گھر، بنی گالہ میں 3کنال پر کوٹھی اور چکری روڈ راولپنڈی میں 10کنال اراضی کے مالک بنے۔
حریت کے ایک اور سرکردہ لیڈر کو لندن میں منی لانڈرنگ کے کیس میں ہتھکڑیاں بھی لگی تھیں ان کے بارے میں یہ قصے زبان زد عام ہیں کہ وہ حج سیزن میں سعودی عرب جاتے اور وہاں جا کر کشمیریوں کے نام پر حاجیوں سے پیسے اکٹھے کرتے پھر حاصل کردہ رقم اپنی پراپرٹی بنانے پر لگا دیتے۔
4جولائی1999ء کارگل لڑائی کے دوران کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے دفتر میں ایک میٹنگ ہوتی ہے ، میٹنگ میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے بندے لے کر آئے تا کہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ایک جلوس نکالا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما رضامند ہو گئے مگر ان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا تھا کیونکہ پار سے آئے ہوئے زیادہ تر مہاجرمزدوری پیشہ تھے اور وہ مہنگی ٹرانسپورٹ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ ٹرانسپورٹ کی مد میں فی گاڑی مبلغ 1000 روپے سکہ رائج الوقت ادا کیا جائے گا۔ مقررہ تاریخ پر جلوس نکلا ، دوسرے دن ایک حریت رہنما قافلے میں شریک اپنی گاڑیوں کا کرایہ لینے کیلئے حریت کے دفترگیا تو وہاں پر پیسوں کے معاملے پر لڑائی ہو رہی تھی حریت لیڈر جو پیسے دے رہا تھا اس کی کوشش تھی کہ کم پیسے دے کر زیادہ پیسے بچا کر اپنی جیب میں ڈالیں جائیں۔
دو ہفتے قبل اپنے ایک دوست سے ملنے کیلئے اس کے دفتر اسلام آباد گیا ، دفتر وسیع وعریض کوٹھی کے دوسرے فلور پر تھا، دوران گفتگو معلوم ہوا کہ یہ کوٹھی حریت کے ایک ایسے لیڈر کی ہے جس کا نام ہم نے بھی بطور حریت لیڈر پہلی بار سنا۔ 90کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے وہ آج بھی راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تنگ وتاریک کمرے ان کا مسکن ہیں۔ ان کے بچے عام سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔مزدور پیشہ لوگ ہیں جو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔ دوسری جانب ان لوگوں کی دیکھ بھال کیلئے جو لوگ حریت لیڈر بنے وہ لیموزین اور پراڈو کے مالک بنے ، لندن کے مہنگے علاقوں سے لے کر اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ان کی وسیع و عریض جائیدادیں ہیں۔ ان کے بچے مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے این جی او اور دوسرے اداروں میں لاکھوں کے عوض نوکری کر رہے ہیں جبکہ عام مہاجرین کے بچے روزگار کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
یہ کچھ حقائق ہیں جو آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کر کے آنے والے ان لیڈروں کے ہاتھ کون سا الہ دین کا چراغ لگا جس سے ان کی دولت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ عام مہاجرین کے بچے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے جبکہ ہمارے نام پر دولت اکٹھی کر کے وسیع و عریض جائیدادیں بنائی جا رہی ہیں اور ہم غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ایسا آخر کب تک چلے گا؟