اولاد نافرمان کیوں؟

اولاد کا نافرمان ہونا ایک ایسازہر ہے جو معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ،ارینج میرج سے فرار،بھائی بہنوں اور والدین سے بڑھتے فاصلوں نے خاندانی ومعاشرتی زندگی کی چولیں ہلا کر رکھدی ہیں۔ہردوسرا شخص ان مسائل سے دوچار ہے۔یہ کیونکر ہے اور اس کے پھیلاو ¿ کو روکنا کیونکر ممکن ہے؟

میں نے اس سوال پر عرصہ دراز تک غور کیا۔میں نے کئی بزرگوں،بوڑھوں سے سوالات کئے۔اپنے گھر،پڑوس ،معاشرے وخاندان کے حالات کا جائزہ لیا۔اپنے دوستوں کی ازدواجی،خاندانی اورمعاشرتی زندگی کے متعلق معلومات حاصل کیں۔علماءکرام،واعظین کو سنا،کتابوں کا مطالعہ کیا۔اور ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جو ایک نوجوان کی زندگی پرگہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔اور وہ ’نافرمانی‘کا دھبہ اپنی پیشانی پر سجا بیٹھتے ہیں۔مجھے ٹی وی،فلمیں،ڈرامے،محفلیں،دوست اور دینی تعلیم سے دوری کی تمام باتیں پرانی اور چھوٹی محسوس ہوتی ہیںجب میں لوگوں کے رویوں،لہجوں اور گھریلو زندگیوں کو دیکھتا ہوں۔

اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب دینی تعلیم سے دوری کیوجہ سے ہے تو یہ بات کلی طور پر بجا نہیں ۔کیونکہ میں نے کئی دینی گھرانوں کو آپس میں دست وگریباں دیکھا ہے۔اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب جہالت کا کیا دھرا ہے تو یہ وجہ بھی سو فیصد نہیں پائی جاتی ۔کیونکہ کئی نوجوان جو دین و دنیا کی تعلیم سے بے بہرا ہوتے ہیں مگر محض اپنی خاندانی روایات وتربیت کی وجہ سے شام کو اپنے والدین کے پاو ¿ں چوم رہے ہوتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں” ہماری سوچ،ہمارا برتاو ¿،ہمارا رویہ اور ہمارا لہجہ“ ایسے فیکٹرز ہیں جو کسی کو بھی ہمارا تابع فرمان یا باغی بنا سکتے ہیں۔میں نے ایک مفتی صاحب کے دروس میں شرکت کی وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو دوست بناو ¿،اگر تم دوست نہیں بناو ¿ گے تو وہ گلی ،محلے کے کسی آوارہ،نشئی یا شرابی کو دوست بنا لیں گے۔ہمارے ہاں اکثر گھرانوں میں انتہائی سنجیدہ اور گھٹن والا ماحول ہوتا ہے ۔نتیجتاً بچے ہنسی مزاح اورکھیل کود کا ماحول تلاش کرتے کرتے کسی بے ادب محفل کے ہم نشین جا ٹھرتے ہیں۔نوکری پیشہ اور پڑھے لکھے گھرانوں میںتو والدین اپنے بچوں کو ٹائم ہی نہیں دے پاتے ۔سوئے ہوئے بچوں پہ گھر پہنچتے ہیں اور انہیں سوتا چھوڑ کرہی صبح کام پہ نکل جاتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کی تربیت کی یہ ذمہ داری گھر کی نوکرانی یاسکول کو دینا چاہتے ہیں۔جہاں بچہ اپنی ماں اور پاب کے چہرے کو ہی ترس جائے وہاں وہ ان کا ادب کیسے سیکھے گا؟

ہمارے نبی حضرت محمدﷺ اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھر کا ماحول باادب اور صحت مند ہونا چاہیے۔ کچھاو وگھٹن کے ماحول کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔۔دوسرا فیکٹر ہے ہمارا’برتاو ¿‘ہم باہر بڑے باعزت،ڈیرے دار ،نواب ،بااخلاق وباکردار ہوتے ہیں مگر ہمارے اپنے گھر میں ہمارا برتاو ¿ وہ نہیں ہوتا۔جو عزت ہم باہر کے لوگوں کو دیتے ہیں وہ اپنے گھر کے افراد،اپنی بیوی یا اولاد کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ہم مسجد کے مولوی ،سکول کے استاذ یا ڈاکٹر کااحترام کرتے ہیں لیکن اگر یہی افراد ہمارے اپنے گھر سے تعلق رکھتے ہوں تو ہم ان کا مقام تسلیم کرنے کی بجائے ان کے کردار میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ادب ،احترام اور عزت دینا ایک ادھار ہے جو دینے والے کو واپس ضرور ملتا ہے۔

تیسری وجہ ہمار’ا رویہ‘ ہے۔ہم اپنے بیٹے یا بیٹی کو بچپن سے جوانی تک پالتے پوستے ہیں۔شادی کرتے ہیں ۔مگر شادی کے بعد ہمارا رویہ فوراًبدل جاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرنا،بات بات پہ فرق کرنا،مطلب سب کچھ بدل جاتا ہے۔کیا ہم وہ باپ یا وہ ماں نہیں رہتے؟ہمارے اندر فوراً ایک روایتی سسر اور ساس والی روح عود کرآتی ہے ۔اور پھر گھرانے مچھلی منڈی بنے رہتے ہیں۔بیٹوں،بیٹیوں ،بہوو ¿ں یا اُن کی اولادوں میں فرق روا رکھنا،کوئی اچھا،کوئی برا،کسی کو سینے سے لگانا اور کسی کو منہ تک نہ لگانا،کوئی ہر گناہ کرکے بھی معصوم اور کوئی نیکی کے بعد بھی مجرم،یہ انداز ایک ایسا خاموش زہر ہے جو ہم اپنے رویے سے اپنے خاندان کے اندر خود پھیلا رہے ہوتے ہیں۔

حضرت یعقوبؑ کو باقی بیٹوں کی بنسبت حضرت یوسفؑ سے زیادہ محبت تھی ۔اور اس محبت کی ایک شرعی وجہ بھی تھی کیونکہ حضرت یوسفؑ بڑے ہوکر پیغمبر بننے والے تھے ۔مگر ان کے باقی بیٹے باغی ہوگئے اور حضرت یوسفؑ کی جان کے دشمن بن بیٹھے۔اب ہمارے معاشرے میں اگر کوئی باپ اپنی اولاد یا اولاد کی اولاد میں فرق رکھتا ہے تو اُن سے کوئی پوچھے کہ اس کی ان کے پاس کونسی شرعی وجہ ہے؟فطری محبت ایک الگ چیز ہے مگر اس کا اظہار بھی ایسے کیا جائے کہ باقی اولاد پہ اثر نہ پڑے۔

آخری وجہ ہمارا لہجہ ہے ۔ہم باپ ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہرحق حاصل ہے۔جو بولیں،جیسے بولیں ۔گالم گلوچ،مار پیٹ،طعن و تشنیع یعنی اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا ہمیں حق حاصل ہے تو معاف کرنا ۔ایسے رویے کی اسلام کی نظر میں نہ گھر میںاجازت ہے اور نہ باہر ۔محبت کاایک بول سو تعویزوں سے زیادہ موثر ہے ۔نیکی جتلانا نیکی کو ضائع کردیتا ہے۔اولاد کو پالنا،اچھا نام رکھنا،اچھی تعلیم دینا،اورآخر میں ان کی شادی کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری ہمیں ہر حال میں پوری کرنا ہے ،اگر نہیں کریں گے تو دنیا وآخرت کی عدالت میں مجرم ٹھریں گے ۔بلکہ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ رب العزت یہ ذمہ داری ہمیں بااحسن خوبی نبھانے کی توفیق بخشے ۔مگر کسی بھی موڑ پہ اسکو جتلانا اور احسان باور کرانا محبت کی بجائے نفرت پیدا کرتا ہے ۔

خدانخواستہ ناراضگی کی صورت میں اولاد وخاندان کے معاملے میں فتح وشکست کے خول سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ہم معمولی اختلافات کو جو محض رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں اتنا اچھالتے ہیں کہ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔جس دن شوہر نے اپنے آپ کو آقا اور بیوی کو باندی سمجھنا چھوڑ دیا اور والدین نے خود کو بادشاہ اور اولاد کوغلام سمجھنا چھوڑ دیا ،آدھی لڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔اپنی سوچ بڑوں والی بنائیں۔جس عمر میں مشیر ومددگار کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں اولاد نافرمان ہوجائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔

دونوں طرف ضبط وبرداشت کی ضرورت ہے۔اپنے رویوں،لہجوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ فتنوں کا دور ہے۔ہماری اولادیںٹی وی،فلموںاور مصنوعی خوراکوں کی آگ پہ پل رہی ہیں۔اس آگ کو بجھانا ہے تو محبت،پیار،انصاف اور برداشت کا انداز اپنایا جائے ۔ان شاءاللہ ناراضیاں رفع ہوجائیں گی اور گھر جنت کا منظر پیش کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے