انسانی نظام یاخدا کا نظام؟

چھلے ہوئے چلغوزے کھانا آسان مگر چھیل کر کھانا انتہائی کٹھن کام ہے۔ قدرت سارے چلغوزے کاش چھیل کر ہی دیتی تو کیا بات تھی۔ چھلے ہوئے بھی خریدنے جاؤ تو اسے چھیلتا کوئی اور ،کھاتا کوئی اور ہے ۔ کوئی بات نہیں ہم نے خود نہ چھیلا تو کیا ہو ا، چلغوزے کا مزا تو مل ہی گیا۔

مگر یہاں بات چلغوزے کی پڑیا یا یا لالی پاپ کی گڑیا کی نہیں بلکہ اس سوچ کی ہے جو صرف عیاشی کو اپنے لیے آسان بنانا ضروری سمجھتی ہے۔ اس سوچ نے سب مذاہب پر اسی لیے اعتراضات اٹھائے کہ وہ انھیں اپنی عیاشوں پر پریشان کرتے ہیں ۔ باتیں آزادی کی کرتے ہیں مگر آج تک آزادی کی صحیح تعریف تک پیش نہیں کر پائے۔ اور ساتھ اپنے آپ کو انسانیت کا علمبردار تصور کرتے ہیں۔

ان لبرلز کے کیا ہی کہنے کہ جن میں کوئی اقدار تک تو پائے نہیں جاتے۔ دنیا کو چاند سورج پر پہنچانے کے دعویدار ہیں مگر ساتھ ہی جنسی بھوکوں کی طرح اپنی ہی ماں بہنوں اور سگوں تک کو نہیں چھوڑتے ۔دنیا میں آزادی کے نام پر برہنہ ہو نے کو فخر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کون کہتا ہے کہ ترقی کی راہ میں کپڑے پہنا ، زیادہ پہنا یا پورے پہنا کوئی دیوار ہے؟ جہاں بات کی جائے فحاشی ختم کرنے کی تو یہ لبرلز دنیا چاندو مریخ سے سیدھی فلائٹ پکڑ کر ساحلِ سمندر پہنچتے ہیں اور اسے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے "نیچرسٹ بیچ” بنا دیتے ہیں۔ "ایل جی بی ٹی” جیسے قانون متعرف کرائے جاتے ہیں جو کہ قطعی طور پر جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ ایسا تو کوئی جانور بھی نہیں کر سکتا اور یہ انسانیت کے علمبردار صاحب عقل و دانش کرتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ یہ مولوی اور علماء اسلام کسی نہ کسی فضول بات پر بحث ہی کرتے رہتے ہیں اور خود "گو ٹاپ لیس” جیسی افوائدیت خیز تحریکوں پر کام کرتے ہیں جس سے انسایت جنسی معراج پر جا سکتی ہے۔

عورتوں کو آزادی کے سنہرے خوابوں میں الجھا کر انھیں مزید اپنی جنسی خواہشات کا محور بنانا انھیں خوب آتا ہے۔ حالانکہ غور کیا جائے تو خواب دیکھنے بعد بھی عورت وہ ہی کرتی ہے جس کے لیے اسے قدرت نے بنایا ہے بس فرق صرف حلال و حرام، اخلاقی و غیر اخلاقی، انسانی اور حیوانی کا ہوتا ہے۔ ایک طرف عورت کو بے عزت و بے پردہ کر کے بیچ بازار میں سب کی آنکھ دماغ و جنسی سکون کا مرکز بنایا جاتا ہے،اس کی انڈسٹریاں قائم کی جاتی ہے ۔اور دوسری طرف عورت کو باعزت طریقے سے ایک خاص اور حد درجہ اہم مقام دیا ہے ۔ مگر یہ نا قص العقل ہر چمکتی چیز کو آج بھی سونا سمجھنے لگتی ہے۔

جہاں تک اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ ترقی کے لیے مرد عورت کا شانہ باشانہ چلنا لازمی ہے ۔کہا جاتا ہے کسی ٹیم کے آدھے کھلاڑی ڈریسنگ روم میں بیٹھے ہوں اور آدھے میدان میں کھیلیں اور جیت جائیں ، ایسا ممکن نہیں ۔ تو واقعی ایسا بالکل ممکن نہیں ۔ لیکن میدان دیکھ کر کھلاڑی اترے تو ہی جیت سکتے ہیں ۔ قدرتی و عقلِ انسانی دو میدانوں کی متقاضی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں ترقی کو بھی واضح کرنا ہوگا۔ کیا جنسی حیوان بن کر جو حاصل کی جائے وہی ترقی اصل ترقی ہے؟ ایک وہ میدان ہے جسے سب دنیاوی طور پر عملی میدان سمجھتے اور مانتے ہیں۔ لیکن ایک وہ میدان بھی ہے جہاں سے عملی میدان کے کھلاڑی پورے اقدار و اخلاق و انسانی شعور کے ساتھ کھلاڑی پیدا کیے جاتے ہیں۔ وہ تو ان لبرلز نے خالی چھوڑ دیا۔ تبھی یہاں کوئی ماں ہے نہ باپ، بیٹا ہے نہ بیٹی، صرف مرد و عورت ہیں اور ساتھ معاشیات کو استحکام فراہم کرنے والی مشینیں ۔

کون کہتا ہے اسلام نے عورت کو بند کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا ہے جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ پردے کی شرط سے کون سمجھتا ہے کہ عورت کمزور و بے سہارا ہوجاتی ہے۔ عورت کو اسلام نے اتنا قیمتی بنایا ہے کہ اس کی حفاطت کی جائے۔ جہاں تک عملی میدان کی بات ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضروت ہے کہ کون سے عملی میدان میں عورت کامیاب ہے۔حضرت خدیجہ رض خود ایک کاروباری خاتون تھیں، حضرت عائشہ رض جنگوں میں بھی پیش پیش رہی۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی ان سب نے اپنے اصل میدان کو سمجھا اور کبھی نہیں چھوڑا۔ آج سائنسی تحقیقوں کی بنیاد میں مسلمانوں کا خونِ جگر شامل ہے جنھیں کسی اسلامی ماں نے جنا اور پرورش کی۔ جانور اور انسان میں بنیادی تفریق بھی یہی ہے کہ جانور میں اقدار اور اخلاق نہیں ہوتے۔ شاید اسی لیے آج ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جانور و لبرل۔ بلکہ جانور سے بدتر کسی صف میں یہ کھڑتے ہوں۔

ہمارے صحیح علماء کے اخلاص پر شک نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک پاک باز عزت دار نیک خاتون جو پردے کی پابند ہے وہ حد درجہ لبرل نظریات کو تسلیم کرتی عورت سے بہتر ہے۔ علماء اپنے اخلاص کو اس کے ساتھ نظام کی طرف بھی متوجہ کریں۔ یہ نظام ہی ہے جو ایسی سوچ کو بڑھاوا دیتا ہے جو معاشرے میں بے حیائی کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ انسانی ضرورتوں سے کوئی منہ نہیں پھیر سکتا ۔ یہ نظام انسانی ضرورتوں کو حلال طریقے سے پورا کرنے منع کرتا ہے اور حرام کے راستے آسان کرتا ہے۔ اگر اس انسانی نظام کو ہی اکھاڑ پھینکا جائے اوراللہ کا قانون و نظام نافذ کیا جائے جس نے انسان و انسانی معاشرے کو تخلیق کیا ہے تو بہترین معاشرہ بنایا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ ایک خالق ہی اپنی خلق کردہ شے سے مکمل طور پر واقف ہوتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے