پارک لین کے فلیٹس کب خریدے گئے، کب بِکے

پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے میے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بی بی سی اردو کو حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔

حسن نواز کی کمپنیوں پر بھی پارک لین کے فلیٹ کا پتہ درج ہے
حسن نواز کی کمپنیوں پر بھی پارک لین کے فلیٹ کا پتہ درج ہے

پاناما پیپرز میں نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں انکشاف کے بعد سے پاکستان میں حکمران جماعت کے سربراہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور انہی انکشافات کی بنیاد پر حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، جماعتِ اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی درخواستیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہیں۔ وزیر اعظم کی فیملی کی طرف سے ان الزامات کے بارے میں جو وضاحتیں اب تک پیش کی گئی ہیں جن میں قطر کے شہزادے کا خط بھی ہے، اِن کو حزب اختلاف نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں باہم متضاد قرار دیا ہے۔

بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مے فیئر اپارٹمنٹس کے اسی بلاک میں ایک اور فلیٹ ‘بارہ اے’ ایک برطانوی کمپنی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ایون فلیڈ ہاؤس میں فلیٹ نمبر بارہ اے انتیس جنوری سنہ دو ہزار چار میں خریدا تھا۔ برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی دستاویزات کے مطابق حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لیمٹڈ کمپنی سنہ 2001 میں کھولی تھی اور اس پر ان کا جو پتہ درج ہے وہ پارک لین کے فلیٹ کا ہی ہے۔

جلا وطنی کے دوران وزیرِ اعظم نواز شریف کا قیام پارک لین کے فلیٹس میں ہی رہا
جلا وطنی کے دوران وزیرِ اعظم نواز شریف کا قیام پارک لین کے فلیٹس میں ہی رہا

اس کے علاوہ حسن نواز چار دیگر کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لیمٹڈ، کوئنٹ گلاسٹر پیلس لیمٹڈ، فلیگ شپ سکیوریٹیز لیمٹڈ اور کیو ہولڈنگز لیمٹڈ کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور ان سب کمپنیوں پر بھی ایون فیلڈ ہاؤس کے فلیٹ کا پتہ ہی دیا گیا ہے۔ لندن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے سے حاصل کردہ دستاویزات میں مرکزی لندن کے علاقے مے فیئر میں پہلا فلیٹ سترہ ایون فیلڈ ہاؤس، یکم جون انیس سو ترانوے میں نیسکول لیمٹڈ نے خریدا تھا۔
ایون فیلڈ ہاؤس ہی کی عمارت میں دوسرا فلیٹ نمبر سولہ، اکیتس جولائی سنہ انیس سو پچانوے میں نیلسن انٹر پرائز لیمٹڈ نے خریدا۔

اسی عمارت میں تیسرے فلیٹ سولہ اے کی خریداری بھی اسی تاریخ کو عمل میں آئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹر پرائز لیمٹڈ ہی نے خریدا۔ چوتھا فلیٹ سترہ اے تئیس جولائی سنہ انیس سو چھیانوے کو نیسکول لیمٹڈ نے خریدا۔ اس حوالے سے بی بی سی نے وزیرِاعظم پاکستان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سے تحریری طور پر رابطہ کیا تھا اور ان سے ان فلیٹس کی ملکیت اور خریداری کی تاریخ سے متعلق اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006 میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے، اس حوالے ان کا کیا موقف ہے۔ بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات میں آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں بھی سوال شامل تھا جس میں سب سے اہم بات ان کمپنیوں کی خریداری کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں
سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں

یہ وہی فلیٹس ہیں جہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاقِ جمہوریت کو حتمی شکل دی تھی۔ یاد رہے کہ اس سال اپریل میں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد ایک عوامی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پر انھوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو جام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں اور ان کمپنیوں کو بنانے میں مبینہ طور پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر مبنی مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے