میاں محمد نواز شریف پاکستان کے کام یاب ترین سیاست دانوں میں سے ہیں۔ہم نے انھیں” کام یاب ترین” اس لیے کہا کہ سیاست کا اصل مقصد عرف اہل سیاست میں ایک ہی ہے :یعنی عہدہ ومنصب،سو، قسمت کی دیوی اس حوالے سے میاں صاحب پر روز اول سے مہر بان رہی ہے۔پنجاب کے ایک درمیانے درجے کے تاجر وصنعت کار کابیٹا،جسے کرکٹ سے شغف تھا،جنرل محمد ضیاء الحق کی نظر انتخاب جانے کس خدمت کے صلے میں،اس پر پڑی،کہ اس نظر کیمیا اثر نے اسے برسوں کے فاصلے دنوں میں طے کرادیے اور ڈائریکٹ پنجاب کا وزیر خزانہ بنا ڈالا،یوں خزانے کی چابی میاں صاحب کے ہاتھ لگ گئی اور اس کے ثمرات واثرات ان کی نجی زندگی پر کیا اور کتنے پڑے،اس کا فیصلہ توسپریم کورٹ کرنے جا رہاہے،جس نے ابتدامیں ”سب اچھا”کا راگ الاپا تو ملک وقوم کے بہی خواہوں کو کچھ تشویش سی بھی ہونے لگی تھی ،کہ بہر حال سب اچھا نہیں تھا،اگر سب اچھا ہوتا تو پانامہ لیکس میں میاں صاحب کے صاحب زادوں اور صاحب زادی کا نام نہ آتا،میاں صاحب کے وزارائے باتدبیر کی دوڑیں نہ لگتیں،ان پر ”الہامی جواز”القا کرنے کے لیے سینئر صحافیوں کی ”ڈیوٹیاں”نہ لگائی جاتیں…
سردی کے موسم میں برف پگھلتی ہے،سیاسی برف ہو یا عدالتی برف،سو یہ بھی پگھلنا شروع ہو گئی ہے اور دھند بھرے پنجاب کی سیاست وعدلیہ کے افق سے دھند چھٹتی جا رہی ہے،جس کا اظہار معزز عدالت کا یہ بیان بھی ہے کہ اگر میاں صاحب !کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے تو پھر…اس کتاب کے کچھ صفحات غائب ہیں۔اللہ کرے !سپریم کورٹ ان غائب صفحات کا کھوج لگانے میں کام یاب ہو جائے اور فاضل جج صاحب یہ کہہ کر بری الذمہ نہ ہوجائیں،کہ سپریم کورٹ نہ احتساب بیورو ہے اور نہ ہی ٹرائل کورٹ،لہٰذا یہ ہمارے دائرہ کار میں ہی نہیں آتا کہ کسی کی سیاسی یا معاشی زندگی کی کتاب کے ان صفحات کا کھوج لگائیں ،جو غائب ہیں ،بل کہ کردیے گئے ہیں۔
عمران خان ،میاں صاحب سے کئی درجے بہتر کھلاڑی تو ضرور ہیں بل کہ ان ،لیکن سیاسی میدان میں وہ میاں صاحب کے پاسنگ تو کیا عشر عشیر بھی نہیں۔ان کے احتساب کے نعرے کے پس منظر میں وزارت عظمیٰ کے خواب کی تعبیر کی تلاش ہو،نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کا جنون ہو،ملکی معیشت کی بہتری ہویا کچھ اور ،بہر حال وہ اس حوالے سے ایک طویل اننگز کھیلنے کی پوری تیاری کیے بیٹھے ہیں اور سپریم کورٹ سے ان کا یہ کہنا کہ آرٹیکل اکسٹھ باسٹھ کا اطلاق کردیں،چاہے اس کی وجہ سے مجھے بھی نا اہل ہونا پڑے،ملک کا تو بھلا ہوجائے گا…ان کے عزم مصمم کی غمازی کرتا ہے،کہ وہ ماضی کی طرح اس مطالبے کو سیاسی مجبوریوں کی نذر نہیں کریں گے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ”یوٹرن”لیں گے،جس طرح ماضی میں الطاف حسین کے خلاف وہ ”کشتیاں جلاکر”برطانیہ کے کئی دورے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ سے متعدد ملاقاتیں کرنے کے بعد ”مٹی پاؤ”فارمولے کو بروئے کا رلا کر اپنے مطالبے سے دست بردار ہو چکے تھے،اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،جن کے بیان کی ضرورت نہیں ،کہ زبان زد عام وخاص ہیں۔ایک اچھائی کا پہلوخان صاحب کے لیے یہ بھی ہے کہ اس کیس میں ان کے یمین ویسار طاہر القادری اور ذوالفقار علی مرزا جیسے لوگ نہیں ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کوچہ ٔ سیاست کے متعدد کھوٹے سکے اب بھی ان کی جیب میں ہیں،جن سے وہ اپنی جان خلاصی بوجوہ کر بھی نہیں سکتے۔
آمدم بر سر مطلب،میاں صاحب میدان سیاست کے کام یاب کھلاڑی ہیں،جس طرح بڑے زرداری میدان سیاست کے مہا جواری ہیں۔انھیں اللہ تعالیٰ نے شاید ملک وقوم کی قیادت کا یہ آخری موقع دے رکھا ہے،کاش !وہ اس موقع کو ملک وقوم کی خدمت کے ذریعے تاریخ کا ایک تاب ناک ورق بنادیں۔وہ ملک وقوم کے لیے بہت کچھ کربھی رہے ہیں،لیکن میاں صاحب کے ساتھ اس مرتبہ کچھ دیرینہ مجبوریاں صاف محسوس کی جا سکتی ہیں،جن کا ظہور ان کی تقاریر میں وقتاًفوقتاًہوتار ہتاہے۔وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس آخری راؤنڈ میں سیکولراور لبرل پاکستان کی بات کرتے ہیں،حالاں کہ ماضی میں انھیں اسلام پسندی کی وجہ سے ووٹ ملتے رہے،ان کے ووٹ بینک میں اضافہ دینی جماعتوں کی وجہ سے ہوا،چاہے وہ جماعت اسلامی ہو،جمعیت علمائے اسلام وپاکستان کا کوئی دھڑا ہو،جمعیت اہلحدیث ہو یا کوئی اور جماعت…اب صورت حال اس سے مختلف ہے،پروفیسر ساجد میر اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ کوئی مذہبی جماعت اب ان کی اتحادی نہیں۔
میاں صاحب جو ماضی میں اسلام اسلام کی مالا جپتے تھے اب یوٹرن لے چکے ہیں۔وہ اٹھانوے فیصد مسلم اکثریتی ملک کے سربراہ ہیں،جس ملک کی بنیاد ہی اسلام اور دوقومی نظریے پر رکھی گئی،اس کے باوجود ان کی ہم دردیوں کا رخ قادیانیوں اور اقلیتوں کی طرف ہے،،وہ قادیانیوں کو کبھی اپنا بھائی قرارد یتے ہیں تو کبھی ان کی خوش نودی کے حصول کی خاطر اسلام آباد کے ایک معروف تعلیمی ادارے کے شعبہ فزکس کو ایک ایسے سائنس دان کے نام سے منسوب کرنے کی صدر صاحب کو ایڈوائس دیتے ہیں ،جوسکہ بند قادیانی تھا،جس نے ملک کے راز ملک دشمنوں کو دیے،جس نے قادیانیوں کو عدالت کی جانب سے غیر مسلم قرار دینے پر ماں دھرتی کو لعنتی ملک قراردیا اور اپنے بیرونی آقاؤں کی گود میں جا کر بیٹھ گیا تھا…وہ اقلیتوں کے مذہبی ایام کی چھٹیاں منظور کرتے اور مسلمانوں کی مقدس ومحترم شخصیات کی منظور شدہ چھٹیوں کو ایک ایک کرکے ختم کرتے ہیں،وہ ملک کا نصاب تعلیم ایک امریکی این جی اوکے حوالے کردیتے ہیں جس کی سفارشات کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اسلام ہی کو سپریم اور حق مذہب قراردینا فرقہ واریت اور دینی منافرت کی اصل وجہ ہے…یہ ”مشتے نمونہ از خروارے”کے طور پر ہے،ورنہ داستان اس سے زیادہ سنگین ہے!
ہم یہاں ان کی ایک اور خامی کی جانب نشان دہی کرنا چاہتے ہیں،وہ یہ کہ میاں صاحب گوکہ ایک سینئر اور سرد وگرم چشیدہ سیاست دان ہیں،اس کے باوجود وہ انتقامی جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں،حالاں کہ یہ ان کے منصب کے تقاضوں کے خلاف ہے،پنجاب کی جیلوں اور عقوبت خانوں کے درودیوار ان کے اس رجحان کی گواہی دیتے ہیں۔جو شخص انتقامی ذہن رکھتا ہے،ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اس میں یہ خصلت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر کیے جانے والے احسانات کا بدلہ چکانے میں بہت مشاق ہو تاہے،اس میں بھی اس کی رگ انتقام کااثر کا رفرما ہوتاہے،وہ یوں کہ اس طرح وہ اپنے ان دشمنوں سے انتقام لے رہا ہوتاہے جنھوں نے اس کے خلاف جب قدم اٹھاکر اسے دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا تو انھی محسنوں نے ان کی کوششوں کو ناکام بنایا تھا۔میاں صاحب میں بھی یہ خوبی موجود ہے۔ہمارے محترم صدر مملکت اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ان کے سیاسی نامہ ٔ اعمال میں ہماری دانست کے مطابق جو نیکی میاں صاحب کے میزان کے مطابق سب سے بھاری تھی وہ یہ کہ جب میاں برادران لانھی جیل میں قید تھے تو کھاناممنون حسین صاحب کے ہاں سے جا تا تھا،اس پر میاں صاحب ممنون صاحب کے ”ممنون احسان ”تھے جس کا بدلہ انھیں ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز کرکے دے دیا گیا،گوکہ اس کی دیگر وجوہات سے انکار نہیں،لیکن ہم سب سے بڑی نیکی کی بات کررہے ہیں۔
اللہ مغفرت فرمائے مرحوم گورنر سندھ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی صاحب کی ،انھوں نے بھی پی سی اوکے تحت حلف لینے سے انکار کرکے میاں صاحب پر بڑا احسان کیا تھا،جس کا بدلہ انھیں ایسے عالم میں سندھ جیسے شورش زدہ صوبے میں قفاق کا نمایندہ بناکر دیا گیا،جس کے لیے ایک جاں بلب اور بیمار ولاغر گورنر کی نہیں ایک بیدار مغز،جہد مسلسل کا نمونہ ،ان تھک وسرد وگرم چشیدہ میدان سیاست کے مشاق کھلاڑی کی ،بطور گورنر ضرورت تھی۔انصاف سے بتائیے!دو ماہ میں فقط دو دن فرائض منصبی انجام دینے والے بیمار شخص کے علاج معالجے کے نام پر لاکھوں کابجٹ مختص کرنا اس مفلس قوم کے ساتھ سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے،جس کی عمومی علاج معالجے کی صورت حال یہ ہے کہ غریب خاتون بانی پاکستان کے شہر میں ان کے نام پر بننے والے سب سے بڑے ہسپتال میں بیڈنہ ملنے پر فٹ پاتھ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
ہم آج تک یہ بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ بعض اپنے اپنے شعبوں کے شہ دماغوں کو عمر کے آخری حصے میں کوچہ ٔ سیاست میں قدم رنجہ ہونے کا شوق کیوں ہو جاتاہے،حالاں کہ وہ اس کوچے سے جب نکلتے ہیں تو اپنی سابقہ نیک نامی اور ساکھ کو بھی ضائع کردیتے ہیں،محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں،جسٹس افتخار محمد چوہدری ہوں،عمران خان ہوں یا سعیدالزماں صدیقی،سب اپنے شعبوں کے ماہر اور ملک وقوم کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں،مگر یہ ظالم کوچہ ٔ سیاست،ایسوں کے لیے بھلا ہے ہی کہاں…حکیم محمد سعید ایشیاء کے حاذق ترین اطباء میں شمار ہوتے تھے،جب کوچہ ٔ سیاست میں قدم رکھا توبازی گروں نے ستر سال کی عمر میں بھی ان کی خدمات اورمہارت کا خیال کیے بنا کئی گولیاں ان کے جسم میں اتاردیں۔
جاں بلب گورنرکی سانسوں کا رشتہ اب جسم سے ٹوٹ چکاہے اور وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے ہیں،اب پھر میاں صاحب کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے،کہ آیا وہ گورنر کی مسند کسی اور محسن کوتھما کر بدلہ اتارتے ہیں یا کسی بیدار مغزسیاست دان اور بیورو کریٹ کو یہ ذمے داری تفویض کرکے قوم ہر احسان کرتے ہیں۔اللہ کرے !وہ کوئی اور جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس محمد رفیق تارڈ تلاش کرنے کے بجائے ملک وقوم کے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔تادم تحریرشاہد آفریدی،نہال ہاشمی،عشرت العباد اور پرویز مشرف کے نام سننے میں آرہے ہیں،ممتاز علی بھٹو اور غوث علی شاہ جیسے سینئر سیاست دانوں کے نام بھی زیر غور آتے اور پھر پس منظر میں دھکیل دیے جاتے ہیں،شاید یہ دور ہی قحط الرجال کا ہے یا پھر ہمارے اہل وعقد میں مردم شناسی کی حس کم زور پڑچکی ہے!