بارش کا تصور ہی لبوں پر مسکراہٹ لے آتا ہے, بچے بڑے بوڑھے سب اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں. اس موسم کی خوبصورتی پر شعرا نے دیوان لکھ ڈالے,کوئی کالی گھٹاؤں کے سحر میں جکڑتا ہے تو کوئی زخمی دل اداس ہو جاتا ہے.. کہیں ساون کے پکوان خوشبو بکھیرتے ہیں کہیں لب گنگنا اٹھتے ہیں اور کہیں منچلے موج میں آ جاتے ہیں.. چند لمحوں کے لئے دل ہر فکر سے آزاد ہو جاتا ہے مگر کراچی کے باسی اب اداس ہو جاتے ہیں.
ٹوٹی سڑکوں اور ابلتے گٹروں نے زندگی کو مشکل کر دیا ہے.. کراچی والے بھی نجانے کیا سوچ کے بارش کی دعائیں کرتے ہیں چند لمحوں کی خوشی کا تاوان ہفتہ ہفتہ بھر سڑکوں کو لت پت کیے رکھتا ہے.. اک ذرا سا چھینٹا پڑنے سے جہاں من کھل اٹھتا ہے وہیں کچھ گھنٹے گزرنے پر کچرے کے ڈھیر سے اٹھتے بھبکے اور جگہ جگہ کھڑا پانی ساری خوشی کافور کر دیتا ہے..
ارباب اختیار تو آنکھ کان لپیٹے بس اپنی تجوریاں بھرنےمیں مگن ہیں,نہ شہر سے نہ شہریوں سے انھیں کوئی سروکار نہیں.. کراچی کہنے کو معاشی حب ہے مگر کھنڈر بنتا جا رہا ہے.. ساٹھ فیصد ریوینیو دینے والے شہر کی صفائی اور مرمتی کاموں کے لئے دس فیصد بھی کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں.. ملکی ترقی کے دعوے کرنے والے ذرا ادھر بھی نگاہ دوڑائیں تو شاید شہر کی خستہ حالی کچھ نظر آ ہی جائے .
لاپرواہی اور بے حسی کی بھینٹ چڑھتا کراچی اور اس کے باسی منتظر ہیں کہ کوئی تو اس بدحالی کو ختم کرے, کوئی تو ہو جو اس شہر کو کچے میں تبدیل ہونے سے بچا لے, کوئی تو اس شہر کا درد محسوس کرتے ہوئے اس کی رونق لوٹا دے. کیا ہے کوئی جو کراچی کا مسیحا بنے؟ کیا ہے کوئی جو اس کی رفوگیری کرے؟