موسمیاتی تبدیلیوں کے زراعت پر اثرات

بدلتی آب و ہوا سے جہاں موسموں کے دورانیے کم زیادہ ہونے لگے ہیں وہاں ہی پاکستان کی زراعت جس پر 60% آبادی کا انحصار ہے بری طرح متاثر ہو رہی ہے.. چھوٹے کاشتکاروں کے لیے تیزی سے بدلتے موسموں نے بہت سی مشکلات پیدا کر دی ہیں. کاشتکار اپنی زرعی آمدنی سے محروم ہونے لگے ہیں گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں. گرمیوں کا موسم بتدریج پھیلنے لگا ہے جبکہ سردیوں کا موسم سکڑ رہا ہے اور موسم بہار محدود ہو رہا ہے. موسم سرما میں بارشوں کی تاخیر اور کم بارشوں کے باعث گندم کی فصل غیرمعمولی حد تک متاثر ہو رہی ہے بارانی علاقے جہاں پر کسان کا انحصار 100 فیصد بارش پر ہے وہ گزشتہ کچھ سالوں سے گندم کی خاطر خواہ پیداوار نہیں دے پا رہے.

خطہ پوٹھوہار جو چار اضلاع پر مشتمل ہے ملک کی گندم کی مجموعی پیداوار 12.5 فیصد میں حصہ ڈالتا ہے. بدلتی آب و ہوا کی وجہ سے خطہ پوٹھوہار میں بارشیں کم اور بےوقت ہونے کے باعث گندم کی فصل وقت پر کاشت نہیں ہو پاتی. بدقسمتی سے پاکستان کے متعلقہ ادارے محکمہ موسمیات اور محکمہ زراعت ان چھوٹے اور غریب کسانوں کو بروقت معلومات فراہم نہیں کر رہے.. اس حوالے سے چک شہزاد میں کام کرتے کسان کہتے ہیں کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں دی جا رہی. بارشوں کے حوالے سے اگر بروقت بتایا جائے تو ہم اس کے حساب سے فصلیں اگائیں جس سے ہماری محنت اور پیسہ ضائع ہونے سے بچ سکے.

بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا بھر میں آب و ہوا کی تبدیلی پر کام ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں پالیسی میکرز اور فیصلہ ساز اس معاملے کو اہمیت ہی نہیں دے رہے. زراعت کے علاوہ پانی، توانائی، اور صحت کے ادارے بھی آب وہوا کی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں. لیکن پاکستان میں متعلقہ ماہرین اپنا قومی فریضہ سرانجام دینے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹرز اور این جی اوز کے ساتھ کام کرنے میں مشغول ہیں.

کہنے کو چند سال پہلے کلائیمیٹ چینچ کی منسٹری بھی وجود میں آ گئی لیکن محکمہ موسمیات جو اس منسٹری کا ایک اہم ادارہ ہونا چاہیے وہ ایوی ایشن ڈویژن کے ماتحت کام کر رہا ہے. محکمہ موسمیات کی مناسب سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ ادارہ بھی گزشتہ سالوں سے زبوں حالی کا شکار ہے. گزشتہ ایک سال سے محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں. جس سے سب سے زیادہ کسان طبقہ متاثر ہوتا ہے.

محکمہ موسمیات کے ڈی جی غلام رسول سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو وہ وسائل کی کمی اور محکمہ موسمیات کے برسوں پرانے ناکارہ سسٹم کا رونا رو کر بری الزمہ ہو گئے جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر نئے آلات کب آئیں گے تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کام جاری ہے تین سال میں موسمیاتی پیش گوئیاں کرنے والے جدید سسٹم کی تنصیب مکمل ہو گی. کسانوں کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو کسان ہم سے رابطہ کرتے ہیں ہم ان کو معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن سب کسانوں اور کاشتکاروں تک یہ معلومات نہیں جا پاتی اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے کہ کاشتکاروں اور کسانوں تک موسم کی اطلاعات باہم پہنچائی جائیں.. اگر کلائیمیٹ چینچ کو حکومت اور متعلقہ ادارے اہمیت دیں تو مستقبل قریب میں کسی بڑے سیلاب اور خشک سالی جیسی قدرتی آفات سے بچا جا سکتا ہے اور کلائیمیٹ چینچ کے مضمرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محکمہ موسمیات جیسے اہم ادارے کی کارکردگی بھی جانچنے کی ضرورت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے