کشمیر کی مین سٹریم سیاست کاسراب

جمہوریت کے جدید معنی ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں ہیں۔ محض منتخب ہونے پر کوئی سیاستکار عوامی نمائندہ نہیں بنتا۔ درحقیقت عوامی اعتماد یعنی Public Consent جمہوریت کی رُوح ہے، اور جب کوئی منتخب رکنِ اسمبلی یا رکنِ پارلیمان عوامی اعتماد سے محروم ہو، تو وہ ایک بے رُوح جمہوریت کا حصہ ہوتاہے۔ اسے ڈیموکریٹ نہیں کہا جائے گا۔ اگر منخب حکمرانوں کو اپنے ہی ووٹروں کو تہہ تیغ کرنا پڑے، تو ظاہر ہے وہ تکنیکی طور پر منتخب نمائندے تو ہوسکتے ہیں ، لیکن اخلاقی طور پر وہ جمہوریت کے نام پر استعماراور مطلق العنانیت کے نقیب ہوتے ہیں، انہیں پبلک کنزینٹ حاصل نہیں ہوتی ۔

جمہوریت کا ایسا پس منظر ہو، تو عوام نہ صرف بے اختیاریعنی Disempowerہوجاتے ہیں بلکہ نئی نسل بے سیاست یعنی Depoliticizeبھی ہوجاتی ہے ۔ جب منتخب نمائندوں یا حکومت کی کوششوں سے عام لوگ ایمپاور ہوجائیں تو ایسی حکومت مین سٹریم سیاست کی علامت ہوگی۔ اگر لوگ کسی پولیٹکل کلاس کے طفیل نسل درنسل ڈِس ایمپاور ہوتے رہے ہوں، تو اس قبیل کے کسی سیاستکار یا کسی سیاسی گروہ کو مین سٹریم کہنا ایسا ہے جیسے کسی اندھے کے بارے میں کہا جائے کہ وہ رنگوں کی پہچان کرنے میں ماہر ہے۔

ہمارے یہاں کی سیاسی لغت میں مین سٹریم کی ترکیب غلط العام کے طور پر مستعمل ہے۔ عام تاثر ہے کہ نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کانگریس ، بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی کی مقامی شاخیں مین سٹریم سیاست کا حصہ ہیں جبکہ حریت کانفرنس ، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ، دختران ملت، جماعت اسلامی وغیرہ ہماری منقسم سیاست کا علیحدگی پسند خیمہ ہے۔ بعض علیحدگی پسندوں کا تو اصرار ہے کہ وہی اصل مین اسٹریم ہیں اور ہندنواز سیاسی گروہوں کو علیحدگی پسند کہنا چاہیے، کیونکہ وہ لوگ عوام کی غالب سیاسی خواہشات کے برعکس کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ اتنی سادہ تقسیم بھی نہیں ہے۔ یہ دونوں طبقوں کے یہاں رائج ایک مفروضہ ہے، اور کچھ نہیں۔

غیر متنازعہ خطوں میں سیاسی گروہوں کو عوامی اعتباریت کے لئے عوامی بہبود کے کچھ بڑے اور قابل دید کام کرنا پڑتے ہیں، اور وفاقی حکومت کے ساتھ لڑ بھِڑکر عوامی مفاد کو تحفظ دینا پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں کے اہل اقتدار سیاسی گروہ کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے مفاد کی خاطر دلی والوں کا ساتھ دیتے ہیں، ورنہ وہ بھی اسی مٹی کے سپوت ہیں اور یہاں کی غالب سیاسی خواہشات سے وہ نظریاتی طور پر نہیں بلکہ حکمت کے طور پر دُور ہیں۔ اسے بعض لوگ Strategic Retreat کہتے ہیں ۔

اس طرح کے تذویراتی رِٹریٹ کی مثال 1970میں ہمارے یہاں ملتی ہے، لیکن یہ غالب سیاسی خواہشات سے دُوری بھی تھی اور واپسی بھی۔ مرحوم عبدالغنی لون اور سید علی گیلانی کی سیاست اُس وقت کی قانون ساز اسمبلی میں محض حاشیہ پر ہونے والی مزاحمت تھی۔ لون صاحب تو وزارت کے عہدے پر فائز رہے، تاہم گیلانی صاحب اپنی شستہ اُردو میں شیخ محمد عبداللہ کی مخالفت کے لئے ایوان میں نمایاں تھے۔بس یہی تھا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ لیکن1990 میں مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا تو دونوں رہنماوں نے تذویراتی ریٹریٹ کیا۔انہوں نے اقتدار کی سیاست ترک کردی اور عوامی مزاحمت کے نقیب ہوگئے۔ لون اور گیلانی کا شفٹ عوامی خواہشات کے احترام میں تھا، یا پھر اس کے پیچھے یہ احساس کارفرما تھاکہ کہیں لوگ انہیں ایک لولی لنگڑی اسمبلی میں لوگوں کے ناکام وکیل کے طور پر یاد نہ کریں؟ یہ سوال بہرحال پہلو بہ پہلو بحث کا متقاضی ہے۔

شیخ عبداللہ نے بھی1975میں Strategic Retreat کیا۔ لیکن وہ عوامی مزاحمت سے ’’عوامی حکومت‘‘ کی طرف چلے گئے۔ متنازعہ خطوں میں جو سیاسی گروہ منتطم ملک یا محسن ملک کے ساتھ مفید بارگین نہیں کرپاتے، وہ ہرگز مین سٹریم گروہ نہیں کہلاتے۔ شیخ عبداللہ نے تذویراتی ریٹریٹ تو کیا، لیکن یہ یکطرفہ رعایت کی بنیاد پر تھا۔ انہوں نے دلی کو ررعایت تو دی، لیکن کشمیریوں کے حق میں کوئی رعایت حاصل نہ کرپائے۔ اسی لئے ان کی تذویراتی ریٹریٹ سے ایک ہیرو راتوں رات ویلین بن گیا ! گیلانی اور لون نے ریٹریٹ کیا، مگر اس کا نتیجہ پاکستان کی طرف سے کسی اقدامی کاروائی کے طور برآمد نہیں ہوا۔ شیخ نے ریٹریٹ کیا، تو اس کا نتیجہ کشمیر میں دلی کے مستقل فوجی، انتظامی اور آئینی داخلہ کی صورت میں برآمد ہوا۔ باقی سب تاریخ کے جزیات ہیں۔لہذا سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ مین سٹریم سیاست کے خصائص کیا ہیں؟

تامل ناڈو کے کانجی ورم نٹراجن انا دُرائے یا سی۔ اے ۔دُرائے کو بھارت میں باغی سیاست دان کہا جاتا ہے۔جنوبی ہند میں انہیں انا کہتے ہیں۔ دلی والے تو انہیں علیحدگی پسند کہتے تھے۔ انہوں نے دراوڈ نظریہ کی بنیاد پر تامل ناڈو کو خودمختار ملک قرار دیا، اور بھارت سے علیحدگی کی ہمہ گیر تحریک چلائی۔ انہوں نے بھی تذویراتی ریٹریٹ کیا، لیکن وہ اپنی اور اپنے لوگوں کی شرائط پر تامل ناڈو کے پہلے غیرکانگریسی وزیراعلی بن گئے۔ ان کی سیاست نے بااختیار ریجنل ازم کی بنیاد رکھی۔ عوامی اعتماد انہیں اس قدر حاصل تھا کہ ان کے نام پرایک باقاعدہ سیاسی تنظیم قائم کی گئی ، جو آج بھی تامل ناڈو کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ یہ انا سٹائل مزاحمت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی تامل ناڈو ایک بااختیار ریاست ہے، جو وفاقی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تامل مفاد کی وکالت کرتی ہے۔پانی کی بین الریاستی شراکت کامعاملہ ہو یاسزائے موت کا، تامل ناڈو کی اسمبلی پورے عوامی وقار کے ساتھ وفاقی حکومت کو ناکوں چنے چبواتی ہے۔

شمال مشرقی ہندوستان کی کئی ریاستوں کی طرح میزورم بھی متنازعہ سیاسی ماحول کی گرفت میں رہی ہے۔ لا ل ڈینگا یہاں کے ہردل عزیز سیاست دان تھے۔ انہوں نے بھارتی وفاق سے علیٰحدگی کے لئے مسلح مزاحمت کے لئے باقاعدہ ایک آرمی قائم کی تھی۔ وہ خود کو’’جنرل لال ڈینگا‘‘ کہتے تھے۔ تامل لوگ آج بھی انہیں ’’جنرل لال ڈینگا‘‘ ہی بلاتے ہیں۔ انہوں نے بھی شیخ عبداللہ کی طرح ہی اندھرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کئے۔ اپنی شرائط پر میزورم کے وزیراعلی بن گئے اور میزورم میں ایسی سیاست کو پروان چڑھایا جسکے تحت حکومت ہند محض ایک سہولت کار ہے، انہ داتا نہیں۔

جدید دور میں نتیش کمار، لالو یادو، ممتا بینرجی، مایا وتی اور اروند کیجری وال اسی قبیل کے سیاستکار ہیں۔ اپنے اپنے خطوں میں یہ سب لوگ مین سٹریم سیاست کے سُرخیل ہیں۔ انہیں صرف ووٹروں کی حماعت نہیں بلکہ پبلک کنزینٹ یعنی عوامی اعتماد حاصل ہے۔کشمیر کے مقابلے میں یہ سب لوگ سیاسی طور مستحکم اور پرامن خطوں میں سرگرم ہیں۔

لیکن اگر خطہ کشمیر جیسا متنازعہ ہو، اور سیاسی گروہ اقتدار کے لئے ووٹوں سے زیادہ خطے کے منتظم ملک کی عنایات پر منحصر ہو، تو وہاں کے اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ Public Consent کے لئے انہیں عوامی بہبود یا مفاد عامہ کی حاجت نہیں ہوتی۔ ایسے خطوں میں غالب سیاسی خواہشات کی تراش خراش کرکے کچھ مقبول نعرے اختراع کئے جاتے ہیں تاکہ اقتدار بھی بنا رہے اور عوامی کنزنٹ کا بھرم بھی۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور دوسری ہندنواز جماعتوں کا طریق یہی رہا ہے۔لہذا ہمیں انہیں مین سٹریم سیاسی خیمے میں رکھنے پر اعتراض ہے۔ یہ لوگ کتنی ہی چکنی چپڑی باتیں کریں، یہ انا دُرائے، لال ڈینگا یا کیجریوال کا عشرعشیربھی نہیں ہیں۔ لہذا یہ مین سٹریم نہیں بلکہ سائڈ سٹریم ہے۔

2010میں فرضی جھڑپوں میں معصوموں کی ہلاکت کے خلاف جب کشمیراُبل پڑا تو اُسوقت کے وزیراعلی عمرعبداللہ نے پبلک کنزنٹ کو بحال کرنے کیلئے فوج کو حاصل لامحدودو اختیارات پر خوب واویلا کیا، انہوں نے فوج کو غیرجوابدہ بنانے والے کالے قانون آرمڈفورسز سپیشل پاورس ایکٹ کے خاتمہ کی بات کہی، لیکن انہیں بہرحال پُرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑا۔ محبوبہ مفتی اور ان کے مرحوم والدمفتی سعید نے بھی جنوبی ایشیا، آر پار تجارت اور قدرتی راستوں کی بحالی اور خودحکمرانی کے سہانے خوابوں کی خوب تجارت کی تھی۔ لیکن ہوا کیا؟ بالآخر پی ڈی پی نے ہندوانتہاپسند گروہ کے ساتھ سیاسی نکاح کرلیا، اور اس الائنس کو مفتی سعید مرحوم نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ’’نارتھ پول ۔ساوتھ پول ‘‘ الائنس قرار دیا۔ حالانکہ تکنیکی اعتبار سے جب قطب شمالی قطب جنوبی سے ٹکرائے گا، نتیجہ قیامت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن مفتی صاحب کی تھیور ی پر قصیدہ پڑھنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ یہ الائنس اس قدر بے مثال تھا، کہ مفتی سعید کومحض ایک حریت رہنما کی رہائی پردلی میں ’’پاکستانی چیف منسٹر‘‘ کہا گیا۔ مفتی کے انتقال کے بعد اب زمام اقتدار ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیرکی بات دلی میں کی تو انہیں کرسی چھوڑنا ہوگی، لہذا وہ دلی کی بات کشمیر میں کرتی ہیں۔ دراصل کشمیر میں تذویراتی ریٹریٹ کرنے والے سبھی ہندنواز سیاستکار کشمیر میں دلی کی امیج کا ڈرائی کلین کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیریوں کے یہاں بھی مبغوض ہیں اور دلی والوں کے یہاں بھی مشکوک۔ کیا یہی مین سٹریم سیاست کہلائے گی؟ ہم کہیں گے ، ہرگز نہیں۔

اب رہا سوال حریت کانفرنس یا س قبیل کے باقی گروہوں کا۔ پاکستان نے چاہا کہ 1990میں یہاں کے ہندمخالف گروہ مسلح شورش کے اپرگراونڈ نمائندے بنیں۔ گیلانی سے لیکر پروفیسر غنی تک اور میرواعظ سے شبیر شاہ تک سب نے وہی کیا۔ اپنی سیاسی تقدیر کو آوٹ سورس کرکے یہاں کے ’’قائدین ‘‘ نے عوامی مفاد کے لئے اپنے محسن ملک کے ساتھ کوئی سیاسی بارگین نہیں کیا۔ جب جنرل مشرف نے بھی Strategic Retreat کے نام پر اقوام متحدہ میں درج قراردادوں کو قصہ پارینہ کہہ دیا تب بھی یہاں کے حریت رہنماوں نے چار نکاتی فارمولہ پر بنا سوچے سمجھے عوامی رابطے کی مہم چھیڑ دی۔ سید گیلانی نے جنرل مشرف کی حمایت نہیں کی۔ لیکن اسے جماعت اسلامی پاکستان کا اثر سمجھا جاتا ہے، نہ کہ کوئی سوچی سمجھی حکمت عملی۔ اگر مشرف نے گیلانی سے پوچھا تھا کہ بھارت کے ساتھ لین دین کرلیں گے، تو گیلانی کا جواب ہونا چاہیے تھا کہ ’’اگر بھارت واقعی کوئی رعایت دینے پر آمادہ ہے، تو آپ آگے بڑھیے لیکن حتمی فیصلے کو عوامی توثیق کے ساتھ مشروط کردیجیے، پھر دیکھتے ہیں، لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ لیکن ایسا محسوس ہوا کہ گیلانی صاحب مشرف کا تختہ پلٹنے کو شہدائے کشمیر کی قربانیوں کا ماحصل قرار دینے پر آماد ہ تھے۔ بہرحال ، گیلانی ہوں، یاسین ملک ہوں، شبیر شاہ ہوں یا میرواعظ عمر فاروق، ان میں سے کوئی بھی رہنما پاکستان کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات کرنے میں ابھی تک کامیا ب نہیں ہوپایا۔ طالبان پر پاکستان کی جتنی عنایات ہیں، اس کے مقابلے میں اُس ملک نے کشمیریوں کے حق میں کچھ نہیں کیا۔ سفارتی ، اخلاقی یا سفارتی حمایت کے محض اعتراف کے عوض کشمیریوں نے پاکستان کوفیصلہ سازی کا یک طرفہ اعتماد دے رکھا ہے۔ اس کے برعکس طالبان نے پاکستان کی مسلسل منت سماجت کے باوجود مذاکرات یا کابل میں حکومت سازی کے لئے آزاد فیصلہ سازی کا حق محفوظ رکھا ہے۔

بے شک حریت کانفرنس یہاں کے غالب سیاسی جذبات کی نمائندہ علامت ہے، اور اسی وجہ سے اسے سماجی تقدس یعنی Social Sanctity حاصل ہے، لیکن حریت کو بھی مین سٹریم نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ وہ محسن ملک سے مقامی حالات کے مطابق رعایات لینے میں ابھی تک ناکام ہے۔ درحقیقت حریت نواز خیمہ ہو یا اسمبلی سے وابستہ سیاستکار، مین سٹریم کہلانے کے لئے عوام کو ایمپاور کروانے کی صلاحیت ناگزیر ہے۔ کشمیر میں سیاست تقسیم درتقسیم ہے، لیکن مین سٹریم کا خیمہ اب بھی خالی ہے۔ عوام کو انتطار ہے کہ کوئی مین سٹریم قوت اُبھرے جو کشمیر میں بھارت کے فوجی جبر پر دلی سے آنکھیں ملا کر بات کرے اور پاکستان سے دو ٹوک کہے کہ Depoliticize ہورہی ہماری نئی نسل کو بااخلاق اورباختیار سیاست کے ساتھ ہمکنار کرنے میں ممدومعاون نہیں بن پاتا تو کم ازکم رکاوٹ بھی نہ بنے۔

(مصنف سرینگر میں مقیم کشمیر کے سینئر صحافی ہیں، فی الوقت جموں کشمیر میں بی بی سی کے نامہ نگار ہیں۔ رابطہ:rmasroor@gmail.com)

بشکریہ: ماہنامہ بے لاگ سری نگر، کشمیر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے