"اسلامی بینکاری” کیوں "اسلامی” نہیں ہے؟

میں "اسلامی” بینکاری پر مزید پوسٹس نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ کئی احباب کے لیے یہ معاملہ دلیل سے زیادہ عقیدت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ تاہم بعض اہلِ علم مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ میں "اسلامی” بینکاری پر تنقید کی وجوہات ذکر کروں۔ اس لیے پانچ نکات مختصراً یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ (وجوہات ویسے اور بھی بہت ہیں ۔)

1۔ بینک قانون کی نظر میں ایک شخص ہوتا ہے اور شخصِ قانونی یا شخصِ اعتباری کا یہ تصور اسلامی قانون کے لیے بالکل ہی ناقابلِ قبول ہے ۔ مزید برآں ، اگر بینک کو شخص مان لیا جائے تو مسئلہ حل ہوتا نہیں بلکہ اور بھی گھمبیر ہوجاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس شخص اور اس کے "متعلقین” کے تعلق کے بارے میں اسلامی قانون کی رو سے بعض اور سنجیدہ سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

اسلامی بینکاری پر اہم کتابیں

2 ۔ "بینکنگ” بنیادی طور پر قرض لینے اور قرض دینے کو کہتے ہیں۔ بینک باقی جتنے بھی کام کرتا ہے وہ ضمنی اور ثانوی ہیں۔ بینک کا اصل کام قرض لینا اور قرض دینا ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے قرض، خواہ بغیر سود کے ہو، ناجائز ہے اور صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب یہ بطور تبرع، یعنی خیرات کے طور پر، دیا جائے۔ ذرا سوچیے ایک غریب اکاؤنٹ ہولڈر ایک کھرب پتی شخص (یعنی بینک) کو خیرات دیتا ہے!

3 ۔ بینک کے تمام اعمال پر بنیادی طور پر عقدِ صرف (نقدی کا تبادلہ) کے اصول و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے اور ان اصول و ضوابط کی رو سے ان میں سے اکثر معاملات قطعاً ناجائز ہوجاتے ہیں ۔

4۔ جہاں کہیں یہ نام نہاد "اسلامی بینک” کاروبار کے لیے بظاہر بعض وہ عقود استعمال کرتے ہیں جن کے نام فقہ سے اخذ کیے گئے ہیں ، جیسے مشارکہ ، مضاربہ ، مرابحہ یا اجارہ ، وہاں بالعموم ان عقود کی فقہی شرائط کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے اور یوں یہ صرف نام ہی وہی رہ گئے ہیں، ان کی حقیقت وہ نہیں رہی ہے۔

مستقبل اسلامی بینکاری کا ہے ، اسحاق ڈار

5۔ ان سب سے بڑھ کر سنجیدہ ترین مسئلہ یہ ہے کہ "ربا” کی تعریف کے متعلق "اسلامی بینکاری” کا سارا لٹریچر غلط مفروضات اور غلط اصولوں پر قائم ہے۔ اس لیے جسے وہ "ربا فری” کہتے ہیں ، اکثر اوقات وہ ربا سے آلودہ ہوتا ہے۔

اسلامی بینکاری یا حیلہ بینک

ان میں سے ہر نکتہ تفصیل چاہتا ہے جس کی فرصت نہیں ہے۔ پہلے ہی ان نکات پر تفصیلی پوسٹس کرچکا ہوں۔ تفصیل کے طالب وہ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اسلامی” بینکاری کے وکلا متوجہ ہوں!

وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو قرض 5 اعشاریہ 75 فیصد کی شرح سود پہ دیا جارہا ہے لیکن یہ بینک پھر آگے بہت ہی زیادہ شرح سود پر دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ شرح سود (28 اعشاریہ 89 فی صد) سلک بینک اور سب سے کم شرح سود (7 اعشاریہ 77) فی صد حبیب میٹروپولیٹن بینک وصول کررہا ہے۔ دیگر بینکوں کی تفصیل بھی درج ذیل لنک پر مل جائے گی۔

"اسلامی” بینک کا "شرحِ منافع” (اس ترکیب کے لیے داد دیجیے "شریعہ سپروائزری بورڈز” کو!) بھی بتایا گیا ہے۔ بینک اسلامی کا 13 اعشاریہ 11 فیصد، دبئی اسلامک بینک 11اعشاریہ 65 فی صد، میزان بینک 11 اعشاریہ 53 فی صد، البرکہ 11 اعشاریہ 45 فی صد وصول کررہے ہیں۔

مزید تفصیل کیلئے اس لنک پہ کلک کیجئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے