محکمہ موسمیات میں بدعنوانی عروج پر

ایک زمانہ تھا کہ بڑے بوڑھے پرندوں کی چہچہاہٹ دیکھ کر بارش کی پیشگوئی کر ڈالتے تھے اور مجال ہے کبھی پیشگوئی غلط ہو جائے . پھر وقت بدلا جدید دور آیا نت نئی ایجادات ہوئی، موسم کا احوال جانچنے والے آلات بنے اور دنیا بھر کے محکمہ ہائے موسمیات اپنے لوگوں کو بروقت موسم کی اطلاعات دینے لگے. موسم کے مطابق زیادہ عرصے کی معلومات کسانوں کے لیے کارگر ثابت ہونے لگی.

لیکن پاکستان میں دو ہزار سولہ میں محکمہ موسمیات کی یہ کارکردگی رہی کہ جب جب بارش کی پیشگوئی ہوئی تب تب پوری آب و تاب سے چمکتا سورج گویا ہمارے محکمہ موسمیات کی پیشگوئیوں پر قہقہے لگاتا نمودار ہوتا رہا اور جب جب دھوپ کی پیشگوئی ہوئی تب تب چھماچھم بارش برستی رہی.

اس حوالے سے جب ڈی جی میٹ سے پوچھا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے راڈار سسٹم پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے جبکہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق راڈار جب بارش ہو رہی ہوتی ہے اس وقت بارش کی پیمائش کرنے کا آلہ ہے نا کہ بارش کی پیشگوئی سے راڈار کا کوئی تعلق ہے.

ذرائع کے مطابق ڈی جی میٹ نے 2015 میں چارچ سنبھالنے کے بعد سے اب تک بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی اور تین سو لوگوں کے انتقامی جذبے کے تحت تبادلے کر ڈالے.. انہی انتقامی کارروائیوں سے پریشان کئی ملازمین استعفے دینے پر مجبور ہوئے.. سرکاری ادارے کے ملازم این جی اوز سمیت کسی ادارے کو رن نہیں کر سکتے تاہم ڈی جی میٹ واٹر انوائیرمیٹ فورم نامی این جی او یا این جی او میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائزرہے۔۔

گزشتہ سال یکم جون کو اسلام آباد میں آنے والے تباہ کن آندھی طوفان پر محکمہ موسمیات کی کارکردگی کا پول بھی کھل گیا تھا جس میں جڑواں شہروں میں پندرہ افراد جاں بحق اور ایک سو چھتیس افراد زخمی ہو گئے تھے. محکمہ موسمیات کی جانب سے این ڈی ایم اے سے اس طوفان سے متعلق کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئی تھی جس پر تین جون کو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ڈی جی غلام رسول سے جواب طلبی بھی کی گئی اور جب ڈی جی نے تحریری جواب دیا تھا تو اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا گیا تھا۔۔ تاہم بعد ازاں مزید پیش رفت نہ ہو سکی.

اس طوفان کے بعد ڈی جی میٹ نے این جی او کی ویب سائٹ سے اپنا نام ہٹا دیا۔ اسی طرح دو ہزار سولہ میں ہیٹ ویوز اور خشک سالی سے متعلق پیش گوئی بری طرح غلط ثابت ہوئی.. سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ پیش گوئیاں غلط کیوں ثابت ہو رہی ہیں اس حوالے سے ہماری ڈاکٹر حسن علی بیگ سے بات ہوئی جو محکمہ موسمیات کے سابق میڑولوجسٹ تھے لیکن ذاتی ناپسند کی ایسی بھینٹ چڑھے کہ پہلے ان کو ان کے شعبے سے ہٹ کر کراچی تبادلہ کر دیا گیا جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ میرا اس شعبے میں حاصل کردہ خاص علم اور فن ضائع نہ کریں اور مجھے میرے شعبے میں رہنے دیا جائے جس پر ان کو جواب ملا کہ ادارہ جدھر چاہے تبادلہ کرنے کا مجاز ہے .

ڈاکٹر حسن کہتے ہیں میرے پاس دو ہی رستے بچے تھے، ایک تو یہ کہ محکمہ جدھر چاہے ،ان کا تبادلہ کرے دوسرا میں اپنی پی ایچ ڈی پر خرچ ہونے والی رقم محکمے کو لوٹا دوں اور میں نے بہتر یہ سمجھا کہ پیسے واپس کر دوں۔

ڈاکٹر حسن کہتے ہیں میں بڑے جذبے سے آیا تھا میں نے چائینہ سے پی ایچ ڈی کی مجھے وہاں سے بھی آفر تھی۔۔ مگر میں چاہتا تھا کہ میں اپنے علم سے اپنے ملک کو فائدہ دوں مگر میرا ادارہ ہی مجھ سے فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو من پسند افراد کو یوں نوازا جاتا ہے کہ جب وہ سرکار کے خرچے پر باہر جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے، اگر انہیں ٹرمینیٹ کیا جائے تو انہیں تعلیمی اخراجات ادارے کو واپس کرنے پڑیں گے۔ اور اس سلسلے میں دفتر خارجہ کے ذریعے متعلقہ افراد کو وطن واپس بلا کر رقم لی جا سکتی ہے۔ لیکن من پسند افراد اس معاملے میں مکمل ریلیف دیا جاتا ہے۔۔

ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ جب ایسا سلوک رکھا جاتا ہے تو اس کے بعد ادارے کے ملازمین اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کر پاتے پھر ادارے کی صلاحیت اور کام پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں ۔۔

کچھ اہلکاروں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ "میرٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند لوگوں کو غیر ملکی دوروں اور اسکالرشپ کے لیے بھیجا جاتا ہے. ادارے کی زبوں حالی کی ایک وجہ تقرریوں کی بےضابطگیاں بھی ہیں سفارشی بھرتیاں کرتے ہوئے تعلیمی قابلیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا، لاہور اور فیصل آباد میں محکمہ موسمیات کے اہم عہدے دار کے تیس سے زائد عزیز واقارب اور رشتہ داروں کی بھرتی کی گئی ہیں.”

مقام افسوس یہ ہے کہ ادارہ تباہ ہو رہا ہے مگر متعلقہ وزارتِ اور متعلقہ سیکرٹری کے پاس تمام معلومات اور شکایات ہونے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔۔۔

[pullquote]نوٹ : اس تحریر کے جواب میں متعلقہ لوگ اپنا موقف دینا چاہیں تو آئی بی سی اردو کے صفحات حاضر ہیں . ٹیم آئی بی سی اردو [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے